نیو یارک (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی/اے ایف پی/ رائٹرز) اقوام متحدہ نے اس قرارداد کو کثرت رائے سے منظوری دے دی، جس میں غزہ میں فائر بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ادھر امریکی صدر نے کہا کہ شہریوں پر اندھا دھند بمباری کی وجہ سے اسرائیل حمایت کھونے لگا ہے۔
اسرائیل کو حماس کے خلاف اپنی جنگ میں بڑھتی ہوئی سفارتی تنہائی کا اس وقت سامنا کرنا پڑا جب منگل کے روز اقوام متحدہ نے غزہ میں انسانی بنیادوں پر فوری فائر بندی کا مطالبہ کیا۔ دوسری طرف امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے دیرینہ اتحادی کو بتایا کہ اندھادھند بمباری کی وجہ سے وہ بین الاقوامی حمایت کھونے لگا ہے۔
غزہ میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران پر اقوام متحدہ کی جانب سے سخت تنبیہ کے بعد 193 رکنی جنرل اسمبلی میں تین چوتھائی اراکین نے منگل کے روز فائر بندی کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔
اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک میں سے 153 نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ امریکہ اور اسرائیل سمیت 10 ممالک نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا جبکہ 23 ممالک غیر حاضر رہے۔
قرارداد پر عمل لازمی نہیں لیکن سیاسی اہمیت کا حامل
کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے فائر بندی کے حوالے سے ایک علیحدہ بیان میں کہا کہ “فلسطینی شہریوں کو مسلسل مصائب میں مبتلا رکھنا حماس کو شکست دینے کی قیمت نہیں ہو سکتی۔”
اسرائیل کے سب سے طاقتور اتحادی اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے ایک، امریکہ نے جمعہ کو فائر بندی کے مسودے کو روکنے کے لیے ویٹو کا استعمال کیا تھا۔
فلسطینی اتھارٹی نے اس قرارداد کا خیر مقدم کرتے ہوئے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ اسرائیل پر اس قرارداد پر عمل کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔
اقوام متحدہ میں مصر کے سفیر اسامہ محمود عبدالخالق محمود نے جنرل اسمبلی میں ووٹنگ سے قبل اسرائیل کو سفارتی تحفظ فراہم کرنے کی واشنگٹن کی کوششوں کے بارے میں کہا، ”یہ افسوسناک کوششیں دوہرے معیار کی ایک گھناؤنی علامت ہیں۔”
ووٹنگ سے پہلے اسرائیلی سفیر گیلاد اردان نے کہا، “فائر بندی کا مطلب صرف ایک اور ایک ہے۔۔۔حماس کے وجود کو یقینی بنانا، اسرائیل اور یہودیوں کو ختم کر دینے کا عزم رکھنے والے نسل کش دہشت گردوں کی بقا کو یقینی بنانا۔”
جنرل اسمبلی میں منظور کردہ قرارداد پر اسرائیل کے لیے عمل کرنا لازمی نہیں۔
اسرائیل حمایت کھوتا جا رہا ہے، بائیڈن
جو بائیڈن نے منگل کو آئندہ صدارتی انتخابی مہم کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب کے دوران کہا کہ حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل کو امریکہ اور یورپی یونین سمیت متعدد ملکوں کی حمایت حاصل ہے، ”لیکن اندھا دھند بمباری کی وجہ سے حمایت میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔”
انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو اپنی حکومت کی سخت گیر پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کہ اسرائیل مستقبل میں فلسطینی ریاست کا انکار نہیں کر سکتا۔ بائیڈن کے اس بیان کو دونوں رہنماؤں کے درمیان عوامی سطح پر اختلاف کی ایک واضح علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
امریکی صدر نے خاص طور پر اسرائیل کے نیشنل سکیورٹی کے وزیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “یہ اسرائیلی تاریخ کی سب سے قدامت پسند حکومت ہے۔”
انہوں نے کہا کہ “انہیں (بینجمن نیتن یاہو) کو اس حکومت کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اسرائیل کی یہ حکومت مشکلات کھڑی کر رہی ہے۔” ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ “ہمارے پاس خطے کو متحد کرنے کا موقع ہے۔۔۔۔ اور وہ اب بھی ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ نیتن یاہو کو یہ سمجھ آجائے کہ انہیں اسے مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ آپ فلسطینی ریاست سے انکار نہیں کر سکتے۔ یہ سب سے مشکل کام ہے۔”
پاکستان کا بیان
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کا کہنا تھا کہ “اسرائیل کی یہ عسکری مہم تاریخ میں دیگر نوآبادیاتی حکومتوں کی طرف سے نسلی قتل عام کی کاربن کاپی ہے۔”
پاکستانی مندوب نے اپنے خطاب میں کہا کہ غزہ میں 18 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک، 42 ہزار زخمی اور غزہ کی 80 فیصد سے زائد آبادی کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا ہے، ہزاروں لاپتہ اور ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور اس کے باوجود اسرائیلی کارروائیاں جاری ہیں۔”
پاکستان کے مندوب نے کہا کہ “اسرائیل کا مقصد صرف حماس کو مٹانا نہیں ہے۔ یہ فلسطینی عوام کے خلاف جنگ ہے۔” انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ پر 25 ہزار ٹن دھماکہ خیز مواد گرایا ہے جو ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے ایٹم بموں کے تقریباً برابر ہے۔