بھارت کے پارلیمنٹ میں گھسنے والے چار افراد پر دہشت گردی کا مقدمہ درج

نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کے سیکیورٹی حکام نے تصدیق کی ہے کہ بدھ کو لوک سبھا کے ایوان میں زبردستی گھسنے اور گیس چھوڑنے والے چار افراد کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

جمعرات کو اجلاس کے دوران اپوزیشن رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ وزیرِ داخلہ ایوان میں اس واقعے سے متعلق حقائق سامنے لائیں۔ اس معاملے کی تفتیش کی جا رہی ہے جب کہ اپوزیشن کے 15 ارکان کو ایوان کے اندر مبینہ ناشائستہ رویے کی بنا پر ایوان سے معطل کر دیا گیا ہے۔

معطل ارکان میں 9 کانگریس، دو ’کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ‘ (سی پی آئی ایم)، دو ’دراوڑ منیترا کژگم‘ (ڈی ایم کے) اور ایک ایک ’کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا‘(سی پی آئی) اور ’ترنمول کانگریس‘ (ٹی ایم سی) کے ارکان ہیں۔

وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایوان میں اپنے خطاب میں بتایا کہ “مستقبل میں تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں گی۔”

واضح رہے کہ بدھ کو لوک سبھا کے اجلاس کے دوران اس وقت کھلبلی مچ گئی تھی جب اجلاس کے دوران دو افراد گیلری سے ایوان کے اندر کود گئے تھے۔ ان میں سے ایک شخص نے پیلے رنگ کی گیس چھوڑنی شروع کر دی تھی۔ یہ واردات پارلیمنٹ ہاؤس پر دہشت گرد حملے کی 22 ویں برسی پر ہوئی تھی۔

اسی درمیان پارلیمان کے باہر دو مزید افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ان کے پاس بھی دھوئیں کا کنستر تھا۔ انہوں نے پیلے اور سرخ رنگ کا دھواں چھوڑا۔ ان میں ایک مرد اور ایک خاتون تھیں۔ مرد کا نام انمول شنڈے ہے جن کی عمر 25 سال ہے اور خاتون کا نام نیلم ہے جن کی عمر 42 سال ہے۔

یاد رہے کہ 13 دسمبر 2001 کو پارلیمنٹ ہاؤس پر دہشت گرد حملہ ہوا تھا جس میں پانچ سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

پارلیمنٹ کے ترجمان نے کہا کہ سیکیورٹی لیپس کے باعث آٹھ سیکیورٹی اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے جب کہ پارلیمنٹ کی درخواست پر وزارتِ داخلہ نے واقعے کی تحقیقات بھی شروع کر دی ہیں۔

ایک سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ پارلیمنٹ کی سیکیورٹی کا انتظام کرنے والے تمام یونٹس کو جمعرات کو ایک میٹنگ میں بلایا گیا ہے۔

پارلیمنٹ کے اراکین نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ایوانِ زیریں میں چھلانگ لگانے والے شخص اور اس کے ایک ساتھی نے نعرے لگائے تھے۔ ان نعروں میں “آمریت قبول نہیں کی جائے گی” بھی شامل تھا۔

چار مشتبہ افراد میں سے کچھ کے اہلِ خانہ نے میڈیا کو بتایا کہ وہ طویل عرصے سے ملازمتیں نہ ملنے پر مایوس تھے۔

دہشت گردی کی دفعات

ایک سیکیورٹی اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ملزمان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی قانون (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے ایک بیان میں بتایا کہ وہ اراکینِ پارلیمان کے ساتھ مل کر سیکیورٹی معاملات پر مشاورت کریں گے۔

’بھگت سنگھ فین کلب‘

پولیس کی اب تک کی تحقیقات کے مطابق ان چاروں کا تعلق ’بھگت سنگھ فین کلب‘ نامی ایک سوشل میڈیا گروپ سے ہے۔ وہ سوشل میڈیا کے توسط سے رابطے میں آئے تھے اور انھوں نے ڈیڑھ سال قبل میسور میں ایک دوسرے سے ملاقات کی تھی۔

ساگر شرما لکھنؤ، امول سنہا مہاراشٹرا، منورنجن میسو راور نیلم ہریانہ کی رہائشی ہیں۔ یہ تمام لوگ بے روزگار ہیں۔ منورنجن انجینئر، ساگر آٹو رکشا ڈرائیور اور نیلم طالب علم ہیں۔ وہ صبح کے وقت انڈیا گیٹ پر اکٹھے ہوئے تھے۔ ان تمام کا ارادہ اند رجانے کا تھا لیکن صرف دو لوگوں ساگر اور منورنجن کے لیے ہی پاس کا انتظام ہو سکا۔

میڈیا رپورٹس میں پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پارلیمان کے اندر داخل ہونے کی تیاری کئی مہینے قبل کر لی گئی تھی۔ ان میں سے ایک منورنجن نے سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس کا دورہ کیا تھا اور انھوں نے یہ بات بطور خاص نوٹ کی تھی کی سیکیورٹی کے دوران جوتوں کی تلاشی نہیں کی جاتی۔

پولیس ذرائع کے مطابق اس بات کو محسوس کرنے کے بعد ان کو جوتے کے اندر گیس کنستر چھپانے کا خیال آیا۔ منورنجن نامی شخص نے جوتے میں جگہ بنوائی اور اس میں گیس کنستر چھپایا۔ اسی لیے وہ سیکیورٹی جانچ میں نہیں پکڑے گئے۔ انھیں جھک کر جوتے سے کچھ نکالتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد جمعرات کو پارلیمنٹ آنے والوں کے جوتوں کی بھی جانچ کی جانے لگی ہے۔

ذرائع کے مطابق ملزموں نے پولیس کو بتایا کہ وہ بے روزگاری، کسانوں کی پریشانی اور منی پور تشدد سے پریشان ہیں۔ نیلم پکڑے جانے کے وقت کہہ رہی تھیں کہ عوام پر ظلم ہو رہا ہے۔ حکومت ہماری بات نہیں سنتی۔ آواز اٹھانے والوں کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے ’ڈکٹیٹر شپ نہیں چلے گی‘ جیسے نعرے بھی لگائے۔ ان کے مطابق ہم صرف احتجاج کرنا چاہتے تھے۔

حکومت اور اپوزیشن کی نوک جھونک

پارلیمنٹ کی سیکیورٹی میں خامی کے واقعے پر جمعرات کو دونوں ایوانوں میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان زبردست نوک جھونک ہوئی۔ اپوزیشن کی جانب سے وزیرِ داخلہ امت شاہ کے بیان کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کی جانب سے اپوزیشن ارکان کو خاموش کرانے کی کوشش کے ناکام ہونے کے بعد ایک قرارداد منظور کر کے اپوزیشن کے 14 ارکان کو ایوان سے معطل کر دیا گیا۔ مذکورہ ارکان امت شاہ کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

اسپیکر اوم برلا نے کہا کہ ایوان کے اندر کی سیکیورٹی پارلیمان کے سیکریٹریٹ کے تحت آتی ہے لہٰذا وہ اس معاملے میں حکومت کو مداخلت نہیں کرنے دیں گے۔

ادھر راجیہ سبھا میں بھی ایک قرارداد پیش کر کے ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے رکن ڈیرک او برائن کو ان کے مبینہ ناشائستہ رویے کی بنا پر ایوان سے معطل کر دیا گیا۔ جب اپوزیشن ارکان اپنے مطالبے پر قائم رہے تو دونوں ایوانوں کی کارروائی ملتوی کر دی گئی۔

کارروائی کے ملتوی ہونے سے قبل وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے لوک سبھا میں بیان دیتے ہوئے بدھ کے روز پیش آنے والے واقعے کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ وزیٹرز کو پاس جاری کرنے کے معاملے میں ارکانِ پارلیمان کو بہت محتاط رہنا چاہیے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کے رکن پارلیمان پرتاپ سمہا نے وزیٹرز پاس جاری کیے تھے۔ وہ کرناٹک میں میسور حلقے سے رکن پارلیمان ہیں۔ انھوں نے 2008 میں نریندر مودی پر جب کہ وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، ایک کتاب لکھی تھی۔

‘ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا’

تجزیہ کاروں کی جانب سے بھی پارلیمنٹ کی سیکیورٹی کا معاملہ اٹھایا جا رہا ہے۔

تقریباً 37 برس سے پارلیمنٹ کی کارروائی کور کرنے والے سینئر صحافی معصوم مرادآبادی کا کہنا ہے کہ پارلیمانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی شخص وزیٹرز گیلری سے ایوان کے اندر کود جائے۔ کاغذ اور رومال پھینکنے کے واقعات تو ہوئے لیکن ایسا پہلی بار ہوا کہ دو لوگ داخل ہو گئے اور انھوں نے ایوان کے اندر رنگین گیس چھوڑ دی۔

بعض ارکان پارلیمان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کی پرانی عمارت میں زبردست حفاظتی انتظامات تھے جب کہ نئی عمارت میں نہیں ہیں۔ ان کے بقول پارنی عمارت میں آمد و رفت کے الگ الگ راستے ہیں لیکن نئی عمارت میں ایک ہی راستہ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں معصوم مراد آبادی کہتے ہیں کہ پرانی عمارت میں وزیٹرز گیلری کافی اونچی ہے جہاں سے کوئی لٹک یا کود نہیں سکتا۔ لیکن نئی عمارت میں اس کی اونچائی چھ ساڑھے چھ فٹ ہو گی۔

ان کے مطابق پبلک گیلری میں لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے سیکیورٹی اہلکار کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی موجودگی میں ایسا کیسے ہو گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یا تو وہاں سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی نہیں رہی ہو گی یا پھر انھوں نے توجہ نہیں دی ہو گی۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئی عمارت پرانی کے مقابلے میں تقریباً ڈیڑھ گنا بڑی ہے جس کی وجہ سے اس میں پھیلاؤ بہت زیادہ ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے بھی سیکیورٹی سخت نہ ہو پاتی ہو۔

انھوں نے پاس جاری کیے جانے کے معاملے کو بھی مشکوک بتایا۔ ان کے مطابق ارکانِ پارلیمان کی سفارش پر ہی پاس جاری کیے جاتے ہیں اور ارکانِ پارلیمنٹ کا عملہ روا روی میں پاس جاری نہیں کر دیتا۔

یاد رہے کہ سینئر کانگرس رہنما اور رکن پارلیمان ششی تھرور نے بھی پاس جاری کیے جانے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ اس واقعے کے پس پردہ بی جے پی کے وہ رکن پارلیمان ہیں جنھوں نے پاس جاری کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں