برلن (ڈیلی اردو/بی بی سی) یورپ میں سب سے زیادہ عرب اور مسلم برداری جرمنی میں بستی ہے جو وہاں کی مجموعی آبادی کا 6.6 فیصد حصہ ہیں۔ یہاں بسنے والے 55 لاکھ مسلمانوں میں سے قریباً 25 لاکھ ترک نژاد ہیں۔
لیکن حال ہی میں غزہ کی جنگ نے جرمنی میں بعض مسلمانوں اور عربوں کے لیے نئے چیلنجز پیدا کیے ہیں، جیسے فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیسے کیا جائے۔
حکام کی جانب سے بعض احتجاجی مظاہروں پر پابندیاں لگائی گئیں تھیں۔ دارالحکومت برلن کے بعض سکولوں میں یونیفارم کے ساتھ فلسطینی رومال کوفیہ پہننے پر پابندی ہے۔
ریاست زاکسن نے حال ہی میں جرمن شہریت کے حصول کے لیے ایک نئی شرط شامل کی ہے جو ملک کے عرب اور مسلم حلقوں میں تنازع کا باعث بنی۔
گذشتہ ہفتے جرمن ریاست نے شہریت کے لیے درخواست دینے والوں کے لیے یہ لازم بنایا ہے کہ وہ تحریری طور پر کہیں کہ وہ ’اسرائیل کے حقِ وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور اسرائیل کے بطور ریاست وجود کے خلاف کسی بھی کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔‘
وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کردہ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’اسرائیلی ریاست کا وجود جرمن ریاست کے وجود کی وجہ ہے‘ اور اس لیے شہریت کے درخواست دہندگان کو تحریری طور پر اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔
جرمنی اسرائیل کے لیے نرم گوشہ کیوں رکھتا ہے؟
جرمن ریاست کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں عوامی بے چینی کو روکنے اور یہود دشمنی سے نمٹنے کے لیے لگائی جا رہی ہیں۔
جرمنی میں شہریت کے حوالے سے قوانین وفاقی سطح پر بنتے ہیں مگر یہ 16 ریاستوں پر منحصر ہے کہ وہ اس پر عملدرآمد کرائیں۔ ایسی ہی ایک شرط جرمن پارلیمان میں بھی زیرِ غور ہے جو منظوری پر ملک بھر میں لاگو ہو سکتی ہے۔
جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کے مطابق ریاستی اور وفاقی سطح پر اس شرط کو بائیں طرف جھکاؤ والی جماعت کرسچن ڈیموکریٹس نے پیش کیا مگر اسے دیگر جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ تاہم تین جماعتوں پر مشتمل حکومتی اتحاد میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے کہ ایسے اقدامات اسرائیل مخالف جذبات سے نمٹنے میں کتنے سازگار ثابت ہوں گے۔ انھیں خدشہ ہے کہ کشیدگی کے ماحول میں ایسے کسی اقدام سے مزید تقسیم پیدا ہوسکتی ہے۔
ہولوکاسٹ اور دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی میں نازی حکومت نے 60 لاکھ یہودیوں کا قتل کیا۔ اس لیے اب جرمن ریاست کا خیال ہے کہ اس پر اسرائیل کے لیے ایک ’خاص ذمہ داری‘ عائد ہوتی ہے۔ جرمن حکام کے مطابق اس کے محض سیاسی مقاصد نہیں بلکہ جرمنی کے اپنے وجود کے لیے بھی یہ لازم ہے۔
اسرائیل میں سات اکتوبر کو حماس کے حملے میں قریب 1200 افراد کی ہلاکت پر جرمن وزیر اعظم اولاف شولز نے پارلیمان سے خطاب میں کہا تھا کہ ’جرمنی صرف اسرائیل کے ساتھ ہے۔‘
انھوں نے جرمن زبان کی ایک اصطلاح استعمال کی جس کا مطلب ہے ’ریاست کے وجود کی وجہ۔‘ سابق وزیر اعظم انجیلا مرکل نے کئی بار یہی اصطلاح استعمال کی جو اب جرمن شناخت کا حصہ بن چکی ہے۔
جرمنی میں بعض حلقوں کے لیے ’خوف کا ماحول‘
جرمنی میں عرب اور مسلم برداری نے اس پالیسی کی مخالفت کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حکام فلسطینیوں کی بات نہیں سنتے اور ان کی تاریخ کو نظر انداز کرتے ہیں۔
برلن میں مقیم ایک فلسطینی وکیل سارہ (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ اسرائیلی اور یہودی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے شہر کے سکولوں کے دورے کیے جاتے ہیں تاکہ طلبا کو یہودیوں کی تاریخ سے آگاہ کیا جا سکے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے نو سال کے بیٹے کو کبھی فلسطینی نقطۂ نظر، نکبہ اور لاکھوں فلسطینیوں کے بے گھر ہونے کی وجہ نہیں بتائی گئی۔
سارہ نے مزید کہا ’میرا بیٹا اپنے لیکچر کے بعد رونے لگا۔ اس میں ان کی شناخت اور ملک کی تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں تھا جو اس نے اپنے خاندان اور دادا دادی سے سن رکھی تھی۔‘
سارہ کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر ان کے بیٹے کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ سکول میں فلسطینی علاقوں اور غزہ کی جنگ کے بارے میں بات نہ کرے تاکہ کسی قسم کی پریشانی یا غلط فہمی پیدا نہ ہو۔
وہ کہتی ہیں کہ برلن میں حکام کی طرف سے کیے گئے فیصلوں، جیسے کوفیہ یا فلسطینی پرچم پہننے پر پابندی، سے خاندانوں اور طلبا میں خوف اور اضطراب کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔
’وہ ایک دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ سکولوں کو اس حوالے سے مکمل اختیار ہے کہ وہ پولیس میں شکایت بھی کر سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ حکام سب کے لیے غیر یقینی اور بے چینی کا ماحول پیدا کرنے کے بجائے ایک تعلیمی حل تجویز کریں گے۔‘
ہیمبرگ میں رہنے والے ایک صحافی علا احسان کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال غزہ جنگ کے بارے میں کسی رپورٹ پر کام نہیں کر رہے اور اس حوالے سے مقامی ذرائع ابلاغ کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ’جرمنی کا میڈیا مکمل طور پر اسرائیلی بیانیے کی حمایت کرتا ہے۔‘
’مجھے معلوم ہے کہ میں غزہ کے بارے میں جو بھی رپورٹ لکھوں گا، اس میں میرے مدیر ادارتی پالیسی کے مطابق ترمیم کریں گے۔ میں اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘
علا تسلیم کرتے ہیں کہ عربوں میں یہود دشمنی کے واقعات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض مظاہروں میں ناقابل قبول نعرے بازی کی گئی مگر ان کی رائے میں یہ کہنا غلط ہو گا کہ تمام عرب یہود دشمن ہیں۔
علا کا خیال ہے کہ موجودہ پالیسیوں سے ’جرمن معاشرے میں اختلاف بڑھے گا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ یہود دشمن حرکات اور نعرے بازی کا قصوروار تمام عربوں یا مسلمانوں کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
پیچیدہ تاریخ اور قانونی مسائل
امریکہ کی براؤن یونیورسٹی میں یہودی علوم کی ماہر تعلیم کتیرینا گیلور، جو جرمن اور اسرائیلی دوہری شہریت رکھتی ہیں، کہتی ہیں کہ جرمنی میں یہود دشمنی کی تعریف ’خالصتاً سیاسی ہے جو سائنسی اتفاق رائے یا حقیقی تاریخی تفہیم پر مبنی نہیں۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ پارلیمان نے انٹرنیشنل ہولوکاسٹ ریمیمبرنس ایڈمنسٹریشن کی طرف سے تیار کی گئی یہود دشمنی کی ایک تعریف کو اپنایا جس میں 11 نکات شامل ہیں۔ ان میں اسرائیل کے حوالے سے انفرادی مؤقف سے متعلق سات نکات ہیں۔ اس نے ’اسرائیل پر تنقید اور یہود دشمنی کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔‘
کترینا نے وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’بعض اوقات اسرائیل پر تنقید یہود دشمنی ہو سکتی ہے یا اس کے پسِ پشت یہود دشمنی ہو سکتی ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں ایک جیسے ہیں۔ یہ واضح ہوتا ہے جب ہم یہود دشمنی کو یہودیوں کے خلاف نسلی تعصب کی طرح سمجھیں کیونکہ ایسے بہت سے یہودی اور اسرائیلی یہودی ہیں جو اسرائیلی ریاست پر تنقید کرتے ہیں۔‘
جرمنی میں بعض اندازوں کے مطابق فلسطینیوں کی تعداد 100,000 سے زیادہ ہے۔ جبکہ برلن میں جرمنی کی سب سے بڑی اسرائیلی کمیونٹی آباد ہے۔
کترینا کا خیال ہے کہ خاص طور پر دائیں بازو کی تحریکوں اور کچھ سیاسی جماعتوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ پناہ گزینوں کو یہود دشمنی کے بڑھتے رجحان کا ذمہ دار ٹھہرائیں۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ جرمنی میں 2015 کے بعد سے زیادہ تر یہود مخالف واقعات پناہ گزینوں نے نہیں بلکہ سفید فام جرمنوں نے انجام دیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’مشرق وسطی سے آنے والے تارکین وطن میں ہولوکاسٹ کے بارے میں جاننے، جمہوریت کے جرمن تصور کو سمجھنے اور خود کو ضمن کرنے میں خاصی دلچسپی ہے۔ ان میں جرمن بحث کو سیکھنے اور سمجھنے کی بہت خواہش ہوتی ہے۔‘
ان کے مطابق ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ ’جرمن عوام میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ مشرقی لوگوں کو انفرادی طور پر نہیں بلکہ ایک سا سمجھتے ہیں۔‘
کترینا نے جرمن میڈیا کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ’سب یہ سمجھتے ہیں جیسے مظاہرین دہشت گردی کی حمایت کر رہے ہیں جو کہ گمراہ کن ہے۔ مظاہرین میں کئی لوگ شامل ہوتے ہیں جن کے انفرادی اور پیچیدہ تصورات ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے بتاتے ہیں کہ ان فلسطینیوں کو اپنی رائے، علم اور مشکلات کے اظہار میں چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ انھیں اکثر اسرائیل دشمن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
’فلسطینیوں کے لیے ٹی وی پر آنا یا انٹرویو دینا مشکل ہے کیونکہ ان پر یہود دشمنی کا الزام لگتا ہے۔ یہ مشکل ان فلسطینی دانشوروں، ماہرین تعلیم اور فنکاروں کے لیے بھی موجود ہے جو کوئی سیاسی بیان دیے بغیر تقریبات میں ممنوع قرار پاتے ہیں۔۔۔ کسی شخص کے فلسطینی ہونے پر ان پر یہ الزام لگ جاتا ہے۔‘
انھوں نے اپنی بات کا اختتام یہ کہہ کر کیا کہ ’جرمنی میں تاریخی اعتبار سے ہولوکاسٹ اور اسرائیل کے قیام کے درمیان ایک تعلق محسوس کیا جاتا ہے۔ تاہم جرمن حکومت اس تعلق کو نظر انداز کر دیتی ہے کہ ہولوکاسٹ کا تعلق نکبہ سے بھی ہے جس میں فلسطینیوں کے بے گھر ہونے نے دنیا کے بدترین پناہ گزین کے بحران کو جنم دیا۔‘