غزہ (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) فلسطینی وزیر اعظم محمد شتیہ نے جمعرات کو ایک انٹر ویو میں کہا کہ با ئیڈن انتظامیہ کو اب اپنے الفاظ کو عملی جامہ پہنانا چاہیے اوراسرائیل پر دباؤ ڈالنے سمیت دو ریاستی حل کے ایک تصور کی جانب خصوصی اقدامات کرنے چاہئیں۔
محمد شتیہ نے یہ بات ایسوسی ایٹڈ پریس سے ایک ایسے وقت میں کی ہے جب امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اسرائیل۔حماس جنگ پر گفت و شنید کرنے کے لئے تل ابیب میں اسرائیلی وزیر دفاع یو و گیلنٹ سے ملا قات کی۔
اس جنگ کو اب تیسرا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ گیلنٹ نے کہا کہ اسرائیل کو حماس کو تباہ کرنے کے مقصد میں کئی مزید مہینے لگیں گے۔
جمعرات کو اے پی کو ایک انٹر ویو میں شتیہ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ دو ریاستی حل پر صرف یقین ہی نہ رکھے بلکہ اس پر عمل درآمد کے لیے مخصوص اقدامات بھی کرے۔
امریکہ نے اسرائیل کے خلاف فوری جنگ بندی کے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی مطالبوں کے دوران اسے حمایت فراہم کی ہے لیکن جنگ کے بعد کے منظر نامے پراس کا اپنے اتحادی سے اختلاف ہے۔
اسی دوران اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بدھ کی رات کہا، ہم آخر تک اسے جاری رکھیں گے۔
’’اس پر کوئی سوال نہیں ہے۔ میں سخت تکلیف اور بین الاقوامی دباؤ کو پیش نظر رکھنے کے باوجود یہ کہتا ہوں۔ ہمیں کوئی چیز نہیں روک سکتی‘‘۔
شجائیہ اور مشرقی غزہ شہر کے ارد گرد کے دوسرے علاقوں میں کئی روز تک شدید لڑائی ہو چکی ہے جو جنگ کے شروع میں گھیر ے میں لے لئے گئے تھے۔
شمال سے انخلا کے بار بار کے احکامات کے باوجود ہزاروں لوگ وہاں بدستور موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کے علاوہ کسی اور جگہ کو محفوظ محسوس نہیں کرتے۔ اور یہ کہ انہیں ڈر ہے کہ ممکن ہے وہ اپنے گھروں میں کبھی واپس نہ آسکیں۔
اسرائیل کو عام شہریوں کی ہلاکت پر بین الاقوامی برہمی اور امریکہ کی جانب سے غیر معمولی تنقید کا سامنا ہے۔
حماس کے کنٹرول والی وزارت صحت کے مطابق اب تک 18400 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ جن میں عام شہریوں اور جنگجوؤں کی الگ الگ تعداد نہیں بتائی گئی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اس کے 113 فوجی ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ حماس کے حملے میں 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے جن کی اکثریت عام شہریوں پر مشتمل تھی اور لگ بھگ 240 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔