امریکہ کا اسرائیل پر غزہ میں بڑے آپریشنز کے بجائے ٹارگٹڈ کارروائیاں کرنے پر زور

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکہ نے اسرائیل کو فلسطینی علاقے میں اپنی فوجی کارروائیوں کو کم کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے جمعرات کو اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو اور اسرائیل میں ان کی جنگی کابینہ کے ارکان سے اس معاملے پر تبادلۂ خیال کیا۔

امریکی عہدیدار کی یہ ملاقات حالیہ بات چیت کے سلسلے میں تازہ ترین ہے جس کا مقصد اسرائیل پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ ‘ہائی انٹینسٹی کلیئرنس آپریشنز’ سے زیادہ ‘ٹارگٹڈ، سرجیکل، انٹیلی جینس’ کی بنیاد پر اہم اہداف اور مخصوص عسکری انفراسٹرکچر کے خلاف طویل المدتی کوششوں کی طرف بڑھے۔ یہ بات بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے جمعرات کی شام صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔

عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بیک گراونڈ بریفنگ کے دوران ان میڈیا رپورٹس کی تردید کی کہ امریکہ نے اسرائیل کے لیے اپنی مہم کو ختم کرنے کے لیے چند ہفتوں یا سال کے آخر کا ٹائم ٹیبل مقرر کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جنگی کابینہ نے امریکہ کو ممکنہ ٹائم فریم سے آگاہ کیا ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ اسرائیلیوں کے پاس فوجی مہم کے بارے میں بہت پہلے سے خیالات تھے، جو ہمیں ایک مسئلہ لگا جب کہ صدر جو بائیڈن نے جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیل کے دورے کے دوران تل ابیب کو ان خدشات سے آگاہ کیا تھا۔

امریکہ کی جانب سے اسرائیل پر غزہ میں عسکری کارروائیوں کو محدود کرنے کے لیے ایسے موقع پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے جب غزہ میں بڑے پیمانے پر عام شہریوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں اور امریکہ پر بین الاقوامی اوراندرونی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔

اگرچہ امریکہ اسرائیل سے غزہ میں مزید محدود فوجی مہم کا مطالبہ کر رہا ہے، اسی تناظر میں بائیڈن انتظامیہ کے سینئر عہدیدار نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حماس کے رہنماؤں کو پناہ نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ “یہ اسرائیل کا حق ہے کہ وہ ان رہنماؤں کے پیچھے جائے جنہوں نے سات اکتوبر کے حملوں کی منصوبہ بندی کی اور اسے انجام دیا۔”

‘حماس کو شکست دینے میں کئی ماہ لگیں گے’

ادھر اسرائیل کے وزیرِ دفاع یواو گیلنٹ نے وائٹ ہاؤس کے مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان کے دورے کے دوران انہیں بتایا کہ اسرائیل کی فوج کو غزہ کی پٹی میں حماس کے عسکریت پسندوں کو شکست دینے میں کئی ماہ لگیں گے۔

گیلنٹ نے کہا کہ حماس ایک دہائی سے زائد عرصے سے غزہ میں “زیرِ زمین اور اور زمین کے اوپر” اپنا انفراسٹرکچر بنا رہی ہے اور عسکریت پسند گروپ کو تباہ کرنے کے لیے “ایک طویل وقت درکار ہوگا۔ یہ کئی مہینوں سے زیادہ چلے گا۔

گیلنٹ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس جنگ میں کامیاب ہوں گے اور حماس کو تباہ کردیں گے۔

حماس کے جنگجوؤں نے 7 اکتوبر کو غزہ کی پٹی سے قریبی اسرائیلی قصبوں میں حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک کیے تھے اور 200 سے زائد کو یرغمال بنا کر لے گئے تھے۔

دوسری طرف غزہ کے حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے فوجی ردِعمل سے کم از کم 20 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں اور کئی دہائیوں سے جاری اسرائیل فلسطین تنازع کی سب سے خونریز مہم میں 18,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

جیک سلیوان اور محمود عباس کی ملاقات متوقع

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان جمعے کو فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے ملاقات کے لیے رملہ جائیں گے تاکہ مغربی کنارے میں استحکام پر تبادلۂ خیال کریں۔

دورے کے دوران سلیوان تنازع ختم ہونے کے بعد غزہ کے مستقبل پر بھی توجہ مرکوز کریں گے۔

امریکہ چاہتا ہے کہ غزہ کی ساحلی پٹی فلسطینیوں کے زیرِ انتظام ہو اور اسرائیل کے زیرِ قبضہ نہ ہو۔

غزہ کے مستقبل کے حوالے سے ایک خیال زیرِ بحث ہے جس کے تحت فلسطینی اتھارٹی کی قیادت میں غزہ کی پٹی میں سیکیورٹی فورس تعینات کی جائے۔ بائیڈن انتظامیہ کا خیال ہے کہ ایسی فورس جنگی مہم ختم ہونے کے بعد کئی مہینے کسی نہ کسی طرح کا نیوکلیئس فراہم کرنے کے قابل ہوسکتی ہے۔

دوسری جانب یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اسرائیل اس خیال کو قبول کرے گا؟ اسرائیل کی جنگی کابینہ کے رکن بینی گینتز نے جمعرات کو کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں ‘مکمل سیکیورٹی کنٹرول’ برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔

اعلیٰ امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ “یہ فلسطینی سرزمین ہے اور اسے فلسطینیوں کی قیادت میں ہونا چاہیے۔”

بائیڈن اور اعلیٰ امریکی حکام نے اسرائیل کو بارہا خبردار کیا ہے کہ اسے یہودی آباد کاروں کو روکنے کے لیے کارروائی کرنی چاہیے۔ امریکہ نے تشدد کے کچھ مرتکب افراد پر پابندی بھی عائد کی ہے۔

قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات کی ضرورت پر بات کریں گے تاکہ اسے غزہ کی مستقبل کی حکمرانی میں بااختیار بنایا جا سکے۔

سال 1993 میں اپنے قیام کے بعد سے، اور خاص طور پر 2000 کی دہائی کے اوائل میں دوسری مزاحمت کے بعد سے فلسطینی اتھارٹی عوام میں ساکھ کھو رہی ہے۔ اس کی وجہ حماس کو 2006 کے انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی اور اس نے فلسطینی اتھارٹی کو غزہ سے نکال دیا تھا۔

رائے عامہ کے جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ فلسطینیوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ فلسطینی اتھارٹی بدعنوان ہے اور اس کے صدر محمود عباس کو اس کی قیادت چھوڑ دینی چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں