واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) حکام نے بتایا ہےکہ اہم آبی گزرگاہ آبنائے باب المندب کے قریب ایک بیلسٹک میزائل مال بردار بحری جہاز سے ٹکرا یا جسے حوثی باغیوں کی طرف سے داغا گیا تھا ۔اس سے چند گھنٹے قبل ہی ایک اور حملہ بھی کیا گیا تھا ۔
At approximately 0700, Dec. 15 (Sanaa time), Houthi forces contacted the Motor Vessel MSC ALANYA, a Liberian flagged vessel that was traveling north in the southern part of the Red Sea and threatened to attack it. The Houthis directed the vessel to turn around and proceed south.… pic.twitter.com/DOA2MLqJie
— U.S. Central Command (@CENTCOM) December 15, 2023
ایم ایس سی پلیٹئیم تھری پر میزائل حملہ اور اس سے قبل الجسرہ پر کیے گئے حملے کے ساتھ ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کی بحری کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ ان حملوں سے یورپ اور ایشیا کے لیے کارگو اور ایندھن کی ترسیل کے لیے سفر کرنے والے ان بحری جہازوں کو بھی خطرہ لاحق ہے جو نہر سوئز سے بحر ہند میں داخل ہوتے ہیں ۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے جمعہ کو کہا کہ یمن کے حوثی باغی ’’تجارتی جہاز رانی کی آزادانہ نقل و حرکت کے لیے خطرہ‘‘ ہیں۔
سلیون نے اسرائیل کے دورے کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ ’’امریکہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری، خطے اور پوری دنیا کے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔‘‘ انہوں نے ایران کو اس گروپ کی پشت پناہی کرنے کا ذمے دار بھی ٹھہرایا۔
حوثی ان حملوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
حوثیوں کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا مقصد غزہ کی پٹی کو نشانہ بنانے والے اسرائیلی فضائی اور زمینی حملے کو ختم کرنا ہے۔ تاہم باغیوں کے حملوں میں نشانہ بنائے گئے بحری جہازوں کے ساتھ رابطے کمزور ہو رہے ہیں کیونکہ حملے جاری ہیں۔
حوثی فوج کے ترجمان بریگیڈئیر جنرل یحییٰ ساری نے جمعہ کے روز کیے گئے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ ’’یمن کی مسلح افواج اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ وہ اسرائیلی بندرگاہوں کی طرف جانے والے تمام بحری جہازوں کو بحیرہ احمر میں جانے سے روکتے رہیں گے جب تک کہ وہ غزہ کی پٹی میں ہمارے ثابت قدم بھائیوں کو درکار خوراک اور ادویات نہیں پہنچاتے۔‘‘
اسی دوران بحیرہ عرب میں بلغاریہ کے ایک جہاز کو تحویل میں لے لیا گیا جو ممکنہ طور پر صومالیہ کے ہائی جیکروں کی کارروائی ہے۔
حملوں کی تفصیل
ایک امریکی دفاعی اہلکار اور نجی انٹیلی جنس فرم ایمبرے نے کہا کہ لائیبیریا کے پرچم بردار ایم ایس سی پلیٹئیم تھری کنٹینر جہاز میں حملے کے بعد آگ لگ گئی۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا جہاز میں سوار کوئی زخمی بھی ہوا ہے یا نہیں۔ امریکی اہلکار نے بتایا کہ حملے میں دو میزائل داغے گئےجو ممکنہ طور پر الجسرہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اہلکار نے بتایا کہ ایک میزائل تو پانی میں گرا جبکہ دوسرا پیلیٹیم سے ٹکرا گیا۔
پیلیٹیم نے اس حملے کے بعد اپنا رخ تبدیل کر لیا اور اب جنوب کی طرف جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ ڈیٹا خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے تجزیہ سے حاصل کردہ ہے۔
نجی انٹیلی جنس فرم ایمبرے نے کہا کہ سوئٹزرلینڈ میں قائم ایم ایس سی یا بحیرہ روم کی شپنگ کمپنی کے ایک اور بحری جہاز ایم ایس سی کو حوثیوں نے باب المندب کے پاس خبردار کیا تھا۔ ’’اس جہاز کی مالک کمپنی نے اسرائیل کے ساتھ تعاون کیا تھا اور غالباً یہی وجہ تھی کہ اسے دھمکی دی گئی۔‘‘
اس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انٹیلی جنس معاملات پر بات کی۔ ایم ایس سی نے فوری طور پر ردعمل کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
اہلکار نے بتایا کہ پہلے الجسرہ حملے میں یہ واضح نہیں تھا کہ جہاز کو نشانہ میزائل یا پھر ڈرون سے بنایا گیا۔ ایمبرے اور برطانوی فوج کے یونائیٹڈ کنگڈم میری ٹائم ٹریڈ آپریشنز نے بھی اس حملے کی تصدیق کی ہے۔ یہ فرم مشرق وسطیٰ کی شپنگ لین کی نگرانی کرتی ہے ۔
نجی انٹیلی جنس فرم ایمبرے نے کہا کہ ’’مبینہ طور پر اس پروجیکٹائیل کے جہاز سے ٹکرا نے کے نتیجے میں ایک کنٹینر نیچے گر گیا اور ’ڈیک پر آگ‘بھڑک اٹھی جسے ریڈیو کے ذریعے بتایا گیا۔
الجسرہ جرمنی میں قائم شپر ہاپاگ لائیڈ ادارے کے لئے کام کرتا ہےاور اس کا کہنا ہے کہ اس حملے میں عملے کے کسی رکن کو چوٹ نہیں آئی۔
انٹیلی جنس فرم ایمبرے نے توجہ دلائی کہ ’’ہاپاگ لائیڈ کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ اسرائیلی بندرگاہوں اشدود، حیفا اور تل ابیب میں اس کے دفاتر موجود ہیں ۔‘‘
حوثیوں کے فوجی ترجمان ساری نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ حوثیوں نے پیلیٹیم تھری اور الانیہ کو نشانہ بنایا تاہم اس نے الجسرہ کو ہدف نہیں بنایا۔ یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ ترجمان نے دوسرے جہاز کی شناخت میں غلطی کیوں کی۔
حوثیوں کے حملوں میں تیزی
جمعہ کو ہونے والے ان حملوں نے حوثی باغیوں کی مہم کو مزید تیز کر دیا ہےجنہوں نے حالیہ دنوں میں میزائل حملوں کی ایک سلسلے کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔لیکن ان بحیرہ احمر اور اس کی اہم آبنائے ال مندب میں ہونے والی جہاز رانی ان حملوں سے محفوظ رہی۔ حوثیوں نے جمعرات کو ایک بیلسٹک میزائل داغا لیکن آبنائے سے گزرنے والے ایک کنٹینر جہاز کو نشانہ نہیں بنایا جا سکا۔
حوثیوں کے زیر قبضہ علاقے سے ایک روز قبل داغے گئے دو میزائل آبنائے باب المندب کے قریب ایک تجارتی ٹینکر سے ٹکرا گئے جو بھارتی ساختہ جیٹ ایندھن لے کر جا رہا تھا۔ حوثیوں کی طرف سے پیر کی رات داغا گیا ایک میزائل بحیرہ احمر میں ناروے کے پرچم بردار ٹینکر پر جا گرا۔
اسرائیل حماس جنگ کے نتیجے میں ایک وسیع علاقائی تنازعہ بننے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور عالمی جہاز رانی کو تیزی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ جنگ بندی کے خاتمے سے سمندری حملوں کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔
یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق باب المندب آبنائے اپنے تنگ ترین مقام پر صرف 29 کلومیٹر (18 میل) چوڑی ہے جس سے آنے اور جانے والے جہازوں کے لیے ٹریفک دو چینلز تک محدود ہے۔ سمندر کے ذریعے تجارتی تیل کا تقریباً 10 فیصد اسی راستے سے گزرتا ہے۔ آبنائے سے ایک اندازے کے مطابق سالانہ دس کھرب ڈالر کا سامان گزرتا ہے۔
حوثیوں نے نومبر میں یمن کے قریب بحیرہ احمر میں اسرائیل سے منسلک گاڑیوں کےایک ٹرانسپورٹ بحری جہاز پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ جہاز اب بھی بندرگاہی شہر حدیدہ کے قریب باغیوں کے قبضے میں ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اسرائیلی ارب پتی کی ملکیت والا کنٹینر جہاز بحر ہند میں ایک مشتبہ ایرانی ڈرون کی زد میں آیا۔
حوثیوں اور یمن کی جلا وطن حکومت کی جانب سے لڑنے والے سعودی زیرقیادت اتحاد کے درمیان ایک عارضی جنگ بندی مہینوں سے جاری ہے۔ اس سے یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ کوئی بھی وسیع تر تنازعہ یا مغربی افواج کی طرف سے ممکنہ ردعمل سے جنگ کی صورتحال دوبارہ پیدا ہو سکتی ہے۔
انٹیلی جنس اداروں کی معلومات
نجی انٹیلی جنس فرم ایمبرے اور یونائیٹڈ کنگڈم میری ٹائم ٹریڈ آپریشنز یا یو کے ایم ٹی او نے بتایا ہے کہ جمعرات ہی کے روز نامعلوم حملہ آور مالٹا کے پرچم بردار جہاز روین پر سوار ہوئے جس کا انتظام نیوی گیشن میری ٹائم بلگارے کے پاس ہے۔یہ واقعہ یمنی جزیرے سوکوترا کے قریب بحیرہ عرب میں پیش آیا ۔ بلغاریہ کے حکام نے بتایا کہ جہاز کے 18 رکنی عملے کا تعلق انگولا، بلغاریہ اور میانمار سے تھا۔
بلغاریہ کی وزیر خارجہ ماریا گیبریل نے جمعہ کو صحافیوں کو بتایا کہ ’’ان تمام غیر ملکی شراکت داروں اور اداروں کو یہ معلومات پہنچانے کے لیے ضروری اقدامات کیے گئے ہیں جن پر ہم مدد فراہم کرنے کے لئے بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘
فوری طور پر کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم فوری طور پر اس کا شبہ صومالیہ کے قزاقوں پر ہے۔ حالیہ برسوں میں صومالی قزاقی میں کمی آئی تھی لیکن حوثیوں کے حملوں کےنتیجے میں پیدا ہونے والی افراتفری اور مشرقی افریقی ملک میں غیر یقینی سیاسی صورتحال کے درمیان یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ ان حملوں میں پھر سے تیزی آسکتی ہے۔