طرابلس (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/نیوز ایجنسیاں) بچ جانے والے 25 افراد کو لیبیا کے ایک حراستی مرکز میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن کے مطابق وسطی بحیرہ روم ہجرت کے لیے استعمال کیا جانے والا دنیا کا خطرناک ترین سمندری راستہ ہے۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن کے مطابق تقریباً 61 تارکینِ وطن اس وقت بحیرہ روم میں ڈوب گئے جب ان کا جہاز لیبیا کے ساحل کے قریب اونچی لہروں کی زد میں آ گیا تھا۔
ڈوبنے والے زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق نائجیریا، گیمبیا اور دیگر افریقی ممالک سے تھا۔ متاثرہ افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
عینی شاہدین نے متعلقہ ایجنسی کو بتایا کہ زوارا سے روانہ ہونے والی کشتی پر 86 افراد سوار تھے۔
حکام نے زندہ بچ جانے والے 25 افراد کو واپس لیبیا کے ایک حراستی مرکز میں منتقل کر دیا ہے۔
آئی او ایم کے مطابق بچ جانے والے تارکین وطن کو طبی امداد فراہم کی جارہی ہے۔ ادارے کے مطابق بچ جانے والے افراد کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
‘دنیا کے خطرناک ترین نقل مکانی کے راستوں میں سے ایک’
آئی او ایم کے مطابق وسطی بحیرہ روم ہجرت کے مقصد کے لیے استعمال ہونے والا دنیا کا خطرناک ترین راستہ ہے۔
آئی او ایم کے ترجمان کے مطابق رواں سال وسطی بحیرہ روم اس راستے پر دو ہزار سے زائد تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہوچکے ہیں۔
ان کے مطابق یہ اعداد و شمار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ سمندری راستے پر انسانی جانیں بچانے کے لیے حفاظتی انتظامات ناکافی ہیں۔بحیرہ روم افریقہ سے تارکین وطن کے لیے اٹلی کے راستے یورپ پہنچنے کے لیے ایک اہم راستہ تصور کیا جاتا ہے۔