کوئٹہ (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ چمن میں پاکستان افغانستان سرحد پر آمد و رفت کو قانونی شکل دینے کے لیے ‘ون ڈاکیومنٹ سسٹم’ کو ہر صورت ممکن بنایا جائے گا۔
منگل کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت کا پاسپورٹ پالیسی واپس لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
واضح رہے کہ نگراں وفاقی حکومت نے رواں سال اکتوبر میں چمن میں پاک افغان سرحد ‘باب دوستی’ پر شناختی کارڈ اور اجازت نامے یا ‘تذکرہ’ کے بجائے پاسپورٹ کی شرط کا فیصلہ کیا تھا جس کا اطلاق یکم نومبر سے ہو چکا ہے۔
اس پابندی کے خلاف تاجروں اور مختلف سیاسی جماعت کے کارکنوں کا احتجاجی دھرنا دو ماہ سے زائد عرصے سے جاری ہے اور وہ حکومتی فیصلے کو مسترد کرچکے ہیں۔
نگراں وزیرِ اعظم نے کہا کہ سرحد پر آمد و رفت کو قانونی شکل دینا ریاست کا حق ہے۔ وقتی طور پر جن لوگوں کو اس فیصلے سے مسائل کا سامنا ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ کم ہو جائیں گے۔
ان کے بقول سرحد پر چھوٹے پیمانے کے تاجروں کے لیے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات جاری ہیں۔ جلد ہی حکومت ایک خصوصی پیکج کا اعلان کرے گے۔
‘اپنے حق کیلئے پر امن احتجاج جاری رکھیں گے’
چمن میں چھوٹے پیمانے کے تاجروں کی تنظیم (لغڑی) تاجر اتحاد کے رہنما امیر محمد کہتے ہیں کہ دو مہینے گزر گئے ہیں لیکن ہمارا دھرنا جاری ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ایک سال بھی گزر جائے تب بھی ہم اپنے حق کے لیے پر امن احتجاج جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت چمن میں شدید سردی کے باوجود ہزاروں لوگ اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چمن سرحد ‘باب دوستی’ کے قریب جاری دھرنے میں شریک اکثریت غریب اور مزدور لوگ ہیں جن کا روز گار سرحد پر چھوٹے پیمانے کے کاروبار سے جڑا ہے۔ لیکن دو ماہ سے سرحد پر آمد و رفت پر عائد پابند ی کے باعث ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آ چکی ہے۔
امیر محمد کے مطابق مزدور اور غریب طبقے کے لوگ فاقہ کشی کے باعث خودکشی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر حکومت کو ہماری بے بسی نظر نہیں آتی ہے۔
ان کے بقول “پاکستان بننے کے بعد سے اب تک کسی نے ہمیں الگ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہمارا ایک گھر پاکستان اور دوسرا گھر افغانستان میں ہے۔ ہماری دکانیں افغانستان کی ویش منڈی میں ہیں جب کہ دونوں جانب ہمارے مشترکہ قبرستان بھی موجود ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ وہ پُر امن طور پر اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں۔ تاجروں کو کسی بھی صورت پاسپورٹ کی شرط منظور نہیں ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل (لغڑی) یا چھوٹے پیمانے کے وہ تاجر جن کا چمن یا قلعہ عبداللہ سے شناختی کارڈ بنا ہوتا تھا یا وہ تاجر جن کے پاس افغانستان کے صوبے قندھار کا ‘ای تذکرہ’ تھا، انہیں سرحد پر پیدل آمد و رفت کی اجازت تھی۔
تاہم بلوچستان کے دیگر اضلاع کے شناختی کارڈ رکھنے والے افراد کے لیے پاسپورٹ کی شرط عائد تھی۔
چمن دھرنے کے شرکا اپنے مطالبات کے حق میں مختلف قسم کے احتجاج ریکارڈ کراتے آ رہے ہیں۔ انہوں نے چمن میں تاریخی ریلی نکالی، کفن پوش بچوں کے ہمراہ احتجاج کیا اور گزشتہ ماہ پولیو مہم کا بھی احتجاجاً بائیکاٹ کیا۔
‘مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو انتخابات کا بائیکاٹ کریں گے’
گزشتہ دنوں چمن دھرنے کے سربراہ غوث اللہ نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو وہ آئندہ عام انتخابات کا بائیکاٹ کریں گے اور کسی بھی امیدوار کو کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے سے روکیں گے۔
دھرنا کے ترجمان صادق اچکزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دو ماہ سے دھرنا جاری ہے جب کہ گزشتہ 33 دنوں سے پاکستان افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی بند ہے۔
ان کے بقول دھرنے کے شرکا سے مذاکرت کے لیے گورنر اور وزیر اعلیٰ بلوچستان چمن آئے مگر ان کے وعدے وفا نہ ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ اب پانی سر سے گزر گیا ہے۔ لوگ بے روزگاری کے باعث خود کشی کرنے پر مجبور ہیں۔ بچے دودھ کی عدم دستیابی کے باعث مر رہے ہیں، مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔
ان کے بقول: “ہم کہتے ہیں کہ خدا کے لیے ہمیں اور تنگ نہ کریں اور ہمارے صبر کا امتحان نہ لیں۔ ہم کوئی نا جائز مطالبہ نہیں کر رہے ہیں، ہم صرف اپنے روزگار کے حصول کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔”
سرحد پر پاسپورٹ کی شرط سے متعلق بلوچستان کے نگراں وزیرِ اطلاعات جان اچکزئی کہہ چکے ہیں کہ اس کا مقصد سرحد پار سے دہشت گردوں کے ملک میں داخلے کو روکنا ہے جب کہ اس فیصلے سے پاکستان میں افغانستان سے غیر قانونی نقل و حمل کو بھی روکنے میں مدد ملے گی۔
جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ چمن سرحد پر ‘ون ڈاکیومنٹ پالیسی’ لاگو کرنا ریاستِ پاکستان کا فیصلہ ہے جس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ حکومت سرحدی علاقے میں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے عوام کو تجارتی سہولتوں کی فراہمی، بارڈر مارکیٹوں کے قیام اور گورننس کے مسائل کا مؤثر حل نکالنے کے لیے کوشاں ہے۔ تاہم سفری دستاویزات کی پابندی کے فیصلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
اُدھر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال نے کہا ہے کہ چمن بارڈر پر پابندی کے باعث لاکھوں لوگ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوگئے ہیں اور ان کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آ چکی ہے۔
کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ لوگ چمن میں سرحد کی ایک جانب رہتے اور دوسری جانب افغانستان میں کاروبار کرتے ہیں۔ سرحدی علاقے میں پاسپورٹ رائج کرنا ممکن نہیں ہے۔
منگل کو پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں چمن دھرنے کے شرکا کے حق میں احتجاجی ریلیاں بھی نکالی گئیں اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ چمن سرحد پر پاسپورٹ کی پابندی کے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
علاوہ ازیں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے دورۂ کوئٹہ کے موقع پر ‘پرائم منسٹر یوتھ اسکل ڈویلپمنٹ پروگرام’ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قوم کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کے انسانی وسائل ہیں۔ ہنر مند افرادی قوت کی پاکستان سے باہر اشد ضرورت ہے۔ دوست ممالک آج بھی پاکستان سے افرادی قوت کی درآمد کو ترجیح دیتے ہیں۔
ان کے بقول افرادی قوت کو جدید بنیادوں پر فنی تربیت وقت کی ضرورت ہے۔