واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے ایک نئے قانونی مسودے پر دستخط کر دیے ہیں جس کے تحت پولیس غیر قانونی طور پر امریکی سرحد عبور کرنے والے تارکینِ وطن کو گرفتار کر سکے گی۔
نئے قانون کے تحت ٹیکساس کے مقامی ججز کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ غیرقانونی تارکینِ وطن کو بے دخل کرنے کے احکامات بھی جاری کر سکیں گے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق ٹیکساس کے گورنر نے پیر کو نئے مسودۂ قانون پر دستخط کیے ہیں جس کا اطلاق آئندہ برس مارچ سے ہوگا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ تارکینِ وطن سے متعلق 2010 میں ریاست ایریزونا میں نافذ کیے جانے والے قانون کے بعد کسی بھی ریاست میں تارکینِ وطن کے حوالے سے پولیس کو دیے جانے والے اختیارات کا یہ ڈرامائی اقدام ہے۔
ایریزونا کے قانون کو ناقدین نے ’مجھے اپنے کاغذات دکھاؤ‘ قانون قرار دیا تھا۔ اُس وقت ایریزونا کے قانون کے بیشتر حصوں کو امریکہ کی سپریم کورٹ نے منسوخ کر دیا تھا۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ٹیکساس کے گورنر کے دستخط سے منظور ہونے والے قانون کو بھی ممکنہ طور پر عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ میں تارکینِ وطن کا معاملہ مرکزی حکومت کے دائرۂ کار میں آتا ہے۔ لیکن ریاست ٹیکساس میں برسرِ اقتدار ری پبلکن پارٹی جو بائیڈن کے دورِ صدارت میں مسلسل اپنے حدود سے بڑھ کر اقدامات کر رہی ہے۔
ری پبلکن پارٹی کا مؤقف ہے کہ صدر جو بائیڈن کی حکومت غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے والے تارکینِ وطن کے معاملے پر مؤثر اقدامات نہیں کر رہی۔
ریاست ٹیکساس لگ بھگ 65 ہزار تارکینِ وطن کو امریکہ کے دیگر حصوں میں منتقل کر چکا ہے۔ مزید تارکین کی آمد روکنے کے لیے دریا ریو گرینڈ کے امریکہ کی جانب کنارے پر خاردار تار بھی لگا چکا ہے۔ لوہے کی اس خاردار تار کے سبب میکسیکو سے دریا عبور کر کے آنے والے تارکینِ وطن شدید زخمی بھی ہو جاتے ہیں۔
دوسری جانب پیر کو ہی امریکہ کے کسٹمز اور سرحدی حکام نے ٹیکساس میں میکسیکو کے ساتھ دو سرحدی گزرگاہوں ایگل پاس اور ایل پاسو کو عارضی طور پر بند کر دیا ہے۔ اس کا مقصد یہاں تعینات عملے کو تارکینِ وطن کے معاملے میں معاونت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
باربرداری سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کرسمس سے قبل دونوں سرحدی گزرگاہوں کی بندش سے تجارت متاثر ہو سکتی ہے۔
ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے جس نئے قانون پر دستخط کیے ہیں اس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو حراست میں لے سکتے ہیں جس پر ان کو شبہ ہو کہ وہ قانونی دستاویزات کے بغیر امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔
جب کسی بھی شخص کو حراست میں لے لیا جائے گا اور وہ ٹیکساس کے جج کے سامنے تسلیم کر لے گا کہ وہ امریکہ چھوڑ رہا ہے، تو اسے ملک سے جانے دیا جائے گا یا اس شخص کے خلاف امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کا مقدمہ چلایا جائے گا۔
وہ تارکینِ وطن جو احکامات کی پابندی نہیں کریں گے ان کے خلاف مزید سخت الزامات کے تحت قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے۔
ٹیکساس کے قانون کے تحت غیر قانونی طور پر آنے والے تارکینِ وطن کو، چاہے وہ میکسیکیو کے شہری ہوں یا نہ ہوں، واپس انہیں مقامات پر بھیج دیا جائے گا جہاں سے وہ امریکہ میں داخل ہوئے تھے جن میں میکسیکو کی سرحد بھی شامل ہے۔
خیال رہے کہ آئندہ برس امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونا ہیں اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی نامزدگی کے حصول کے خواہش مند ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے دورِ صدارت میں میکسیکو کے ساتھ دیوار کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا تھا۔
ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے رواں ماہ کے آغاز میں ٹرمپ کی صدارتی نامزدگی کے حصول کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
قانون کے بعض ماہرین ٹیکساس کے نئے قانون کو ریاستی امور سے تجاوز قرار دے رہے ہیں۔ کیوں کہ تارکینِ وطن کا معاملہ مرکزی حکومت کے دائرۂ کار میں آنے والا معاملہ ہے۔
شمالی امریکہ کے ملک میکسیکو نے بھی امریکی ریاست ٹیکساس میں نافذ کیے گئے نئے قانون پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
امریکہ میں تارکینِ وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بعض تنظیموں نے ٹیکساس میں قانون کے نفاذ سے قبل جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسے روکنے کے اقدامات نہ کرنے پر تنقید کی ہے۔
امریکہ میں تارکینِ وطن کے کیسز سننے والے 34 ججوں نے رواں ماہ ہی ایک خط کے ذریعے ایسے اقدامات کی مذمت کی تھی اور ان اقدامات کو غیر قانونی بھی قرار دیا تھا۔ ان ججوں نے دونوں جماعتوں ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے ادوار میں عدالتی فرائض انجام دیے تھے۔
امریکہ اور میکسیکو میں ہونے والے سمجھوتے اور بین الاقوامی معاہدوں کے تحت میکسیکو اپنے شہریوں کو بے دخل کیے جانے پر ان کی واپسی قبول کرنے کا پابند ہے۔ البتہ دیگر ممالک سے آنے والے افراد کے حوالے سے اس پر یہ پابندی لاگو نہیں ہوتی۔