واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے/نیوز ایجنسیاں) بحری جہازوں پر حوثی باغیوں کے حملوں کے بعد تیل کی بڑی کمپنی بی پی نے بحیرہ احمر کے راستے سے تیل کی تمام ترسیل روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ادھر امریکہ نے جہازوں کی حفاظت کے لیے بین الاقوامی بحری آپریشن کی قیادت کا اعلان کیا ہے۔
یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے بحری جہازوں پر حالیہ حملوں کے بعد تیل کی بڑی عالمی کمپنی بی پی نے بحیرہ احمر کے راستے سے تیل کی تمام ترسیلات کو روک دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ادھر حملے جاری رہنے کے سبب کئی مال بردار کمپنیوں نے بھی بحری سفر معطل کر دیا ہے۔
برٹش پیٹرولیم (بی پی) نے اپنے فیصلے کے لیے خطے میں ”سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال” کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی بحیرہ احمر میں ان جہازوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں، جو ان کے خیال میں اسرائیل کے لیے سامان لے جا رہے ہوں۔
بی پی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ”احتیاطی توقف کو جاری رکھنے کے ساتھ ہی صورت حال کا جائزہ لیتی رہے گی اور خطے کی نگرانی کرے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر دیگر بڑی آئل کمپنیوں نے بھی بی پی کی پیروی کی تو اس سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پیر کے روز بھی تیل کی قیمتیں معمول سے کچھ زیادہ تھیں اور تقریباً 79 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں۔
بحیرہ احمر تیل اور مائع قدرتی گیس کی ترسیل کے ساتھ ہی اشیائے صرف کے لیے دنیا کے اہم ترین راستوں میں سے ایک ہے۔
حوثی باغیوں نے حماس کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اسرائیل جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنائیں گے۔ وہ ایسے جہازوں کے خلاف ڈرون اور راکٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔
امریکہ کا باغیوں کے خلاف آپریشن کا اعلان
ادھر بی پی کے اعلان کے بعد امریکہ نے کہا ہے کہ وہ راستے میں بحری جہازوں کی حفاظت کے لیے ایک بین الاقوامی بحری آپریشن کی قیادت کرے گا۔ اس آپریشن میں برطانیہ، کینیڈا، فرانس، بحرین، ناروے اور اسپین جیسے ممالک نے بھی شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایک بیان میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا: ”یمن سے شروع ہونے والے لاپرواہ حوثی حملوں میں حالیہ اضافہ تجارت کے آزادانہ بہاؤ کو خطرے میں ڈال رہا ہے، اسے بے گناہ سمندری جہازوں کو خطرہ لاحق ہے اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے۔”
ایس اینڈ پی گلوبل مارکیٹ انٹیلیجنس کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں درآمد کی جانے والی تقریباً 15 فیصد اشیا ایشیا اور خلیج سے سمندر کے راستے سے بھیجی جاتی ہیں۔ اس میں 21.5 فیصد ریفائنڈ تیل اور 13 فیصد سے زیادہ خام تیل شامل ہے۔
پیر کے روز دنیا کی سب سے بڑی شپنگ فرموں میں سے ایک ایورگرین لائن نے کہا کہ وہ اب بحیرہ احمر کے راستے سے اسرائیل کے لیے سامان نہیں لے جائے گی۔
اس کا کہنا ہے: ”بحری جہازوں اور عملے کی حفاظت کے لیے ایورگرین لائن نے فوری طور پر اسرائیلی کارگو کو قبول کرنے سے عارضی طور پر روکنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے کنٹینر جہازوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ بحیرہ احمر کے ذریعے اگلے نوٹس تک سفر معطل کر دیں۔”
واضح رہے کہ حوثی باغی آبنائے باب المندب سے گزرنے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، جو کہ 20 میل یعنی تقریبا 32 کلومیٹر چوڑی بحری گزرگاہ ہے۔
اطلاعات کے مطابق آبنائے باب المندب کو استعمال نہ کرنے سے بحری جہازوں کو اب جنوبی افریقہ ہوتے ہوئے ایک طویل راستہ اختیار کرنا پڑے گا، جس میں ممکنہ طور پر تقریباً 10 دن کا اضافی وقت لگ سکتا ہے اور اس پر لاکھوں ڈالر لاگت آئے گی۔