برلن (ڈیلی ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) جرمن عدالت کے مطابق بوخم شہر میں یہودی عبادت گاہ میں آتشزنی کے منصوبے کے پیچھے ایران کی ریاستی ایجنسیوں کا ہاتھ تھا۔ اس سلسلے میں عدالت ایک ایران نژاد جرمن شخص کو پہلے ہی سزا سنا چکی ہے۔
ایک جرمن عدالت کے اس فیصلے کے بعد کہ گزشتہ برس یہودیوں کی ایک عبادت گاہ پر حملے کی کوشش کی منصوبہ بندی میں ایران کی ریاستی ایجنسیاں ملوث تھیں، منگل کے روز جرمنی کی وزارت خارجہ نے برلن میں ایرانی سفارتخانے کے ناظم الامور کو طلب کیا۔
اس کے بعد وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ”ہم جرمنی میں کسی بھی غیر ملکی کنٹرول والے تشدد کو برداشت نہیں کریں گے۔”
اس سے قبل ڈسلڈورف کی ایک اعلیٰ علاقائی عدالت نے نومبر 2022 میں جرمنی میں یہودیوں کی ایک عبادت گاہ پر حملہ کرنے کی سازش کرنے پر ایک ایران نژاد جرمن شہری کو مجرم قرار دیا تھا اور اسے دو برس نو ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔
ملزم کی شناخت بابک جے کے نام سے کی گئی ہے، جس نے مغربی شہر بوخم میں ایک یہودی عبادت گاہ پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا، تاہم سیناگوک پر حملے کے بجائے اس نے آتشی مادے سے لیس ایک ڈیوائس پاس کے ایک اسکول پر پھینک دیا تھا۔ اس کی وجہ سے اسکول کی عمارت کو معمولی نقصان پہنچا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔
عدالت نے کیا کہا؟
عدالت نے کہا کہ ملزم نے چونکہ یہودی عبادت گاہ بہت اچھی طرح سے محفوظ پایا اس لیے اس نے اسکول پر حملہ کرنے کا انتخاب کیا۔
وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس بارے میں مزید اقدامات کے سلسلے میں ”نتائج اخذ کرنے اور یورپی یونین کی سطح پر اگلے اقدامات کرنے سمیت” کا تعین کرنے کے لیے، اس کا اچھی طرح سے جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
عدالت نے اس کیس میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حملے کی منصوبہ بندی ”ایران کی ریاستی ایجنسیوں ” کی مدد سے کی گئی تھی۔
عدالت نے یہ بھی شبہ ظاہر کیا کہ گزشتہ برس ایسن میں ایک ربی کے گھر پر آتشزنی کے حملے اور گولیاں چلانے کا معاملہ بھی بوخم کے منصوبہ بند آتش زنی کے حملے سے مربوط تھا۔
جرمنی میں حالیہ برسوں میں سامیت دشمنی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے یہ صورتحال مزید تشویشناک ہو گئی ہے۔