لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بلوچ یکجہتی مارچ کو اسلام آباد پریس کلب جانے سے روک دیا گیا، شرکا نے دھرنا دیدیا

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) بلوچستان کے علاقے تربت سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بلوچ یکجہتی کمیٹی مارچ کو اسلام آباد پہنچنے پرنیشنل پریس کلب کی جانب جانے سے روک دیا گیا جس کے بعد مارچ کے شرکا نے اسلام آباد موٹر وے ٹول پلازہ کے نزدیک چونگی نمبر 26 پر دھرنا دے دیا ہے۔

یہ مارچ تربت میں مبینہ مقابلے میں ہلاک ہونے والے نوجوان کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے چھ دسمبر کو تربت سے روانہ ہوا تھا۔

لانگ مارچ کے شرکا خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے بدھ کی شام اسلام آباد پہنچے تھے ۔

لانگ مارچ کے قائدین میں شامل گلزار دوست بلوچ نے بی بی سی کے محمد کاظم کو بتایا کہ پہلے انھیں پولیس نے اسلام آباد ٹول پلازہ پر روک دیا۔

انھوں نے بتایا کہ ٹول پلازہ روکنے کے بعد ان کو چھوڑ دیا گیا لیکن ابھی وہ بمشکل ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے نہیں کرپائے تھے کہ ان کو دوبارہ روک دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد پریس کلب جانا چاہتے ہیں لیکن پولیس ان کو پریس کلب کی جانب نہیں جانے دے رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کو پولیس اہلکاروں نے ہرطرف سے گھیرے میں لے لیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا احتجاج پر امن ہے اور مارچ کے شرکاء چاہتے ہیں کہ انھیں اسلام آبا د پریس کلب جانے دیا جائے۔

مارچ کی قیادت کرنے والی سمی بلوچ نے بی بی سی کے ریاض سہیل کو بتایا کہ پشاور سے آتے ہوئے اسلام آباد ٹول پلازہ پر 26 نمبر چونگی کے مقام پرانھیں روکا گیا ہے۔

سمی بلوچ نے کہا کہ ’اس وقت چاروں اطراف میں پولیس اہلکار ہیں جبکہ پولیس کی وین پہنچ چکی ہیں تاہم کوئی افسر بات کرنے کے لیے دستیاب نہیں ہے جبکہ جو اہلکار موجود ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اوپر سے حکم ہے کہ انھیں اسلام آباد داخل ہونے نہیں دیا جائے گا۔‘سمی بلوچ کے مطابق وہ شام چھ بجے سے یہاں موجود ہیں آس پاس میں گاڑیاں بھی جام ہوچکی ہیں لیکن آگے نہیں جانے دیا جارہا ہے۔

’ہمارے ساتھ بزرگ اور خواتین بھی ہیں سردی بھی شدید ہیں بشمکل کچھ کمبلوں کا انتظام کیا ہے جبکہ کسی چائے پانی کا انتظام بھی موجود نہیں ہے۔‘

دوسری جانب یکجہتی مارچ کے رہنما مہربان بلوچ نے بی بی سی کے محمد کاظم کو بتایا کہ ’وفاق کا پریس کلب ہم بلوچ شہریوں کے لیے بند نہیں ہوسکتا۔

واضح رہے کہ لانگ مارچ کے شرکا میں تربت میں مبینہ مقابلے میں ہلاک ہونے والے نوجوان کے لواحقین اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ شامل ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں