جرمن (ڈیلی اردو/ ڈی ڈبلیو) یمنی حوثی اسرائیل کے خلاف کارروائیوں کے ذریعے مسلم اور عرب دنیا کواپنے فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونے کا پیغام دے رہے ہیں اور ایسے میں کوئی بھی بڑی عرب طاقت کھل کر حوثیوں کے خلاف اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہتی۔
امریکہ نے جب اس ہفتے کے شروع میں بحیرہ احمر میں سفر کرنے والے تجارتی جہازوں کی حفاظت کے لیے ایک کثیر الملکی بحری فوجی اتحاد کے قیام کا اعلان کیا تو ابتدائی طور پر کہا گیا کہ اس اتحاد میں 10 ممالک حصہ لیں گے۔ اس پیشرفت کے فوراﹰ بعد ہی سوالات اٹھے کہ اس اتحاد میں عرب بحری طاقتوں میں سے کچھ بڑی طاقتیں کیوں شامل نہیں۔
نومبر کے وسط سے یمن میں حوثی باغی ملیشیا آبنائے باب المندب سے گزرنے والے بحری جہازوں کو ہراساں کرنے کے لیے راکٹ داغ رہے ہیں اور ڈرون حملے کر رہے ہیں۔ ایک سینیئر حوثی اہلکار نے سوشل میڈیا پر کہا کہ سلسلہ اس وقت تک نہیں رکے گا، جب تک غزہ میں ‘نسل کشی کے جرائم‘ بند نہیں ہوتے اور خوراک، ادویات اور ایندھن کو غزہ کی محصور آبادی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
مشرق وسطیٰ کے خطے کے ایک ماہر ڈینیئل گرلاچ نے حال ہی میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اسرائیل کے ساتھ دشمنی کی حوثیوں کے لیے ایک اسٹریٹجک وجہ ہے۔ حوثیوں کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل ان کا اصل دشمن ہے حالانکہ حقیقت میں اسرائیل کے ساتھ ان کا کوئی براہ راست علاقائی تنازعہ نہیں ہے۔ لیکن حوثی پوری مسلم اور عرب دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔‘‘
حوثیوں نے 19 نومبر ایک اسرائیلی تاجر کی مشترکہ ملکیت گلیکسی لیڈر نامی کارگو جہاز کو قبضے میں لے لیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے علاقے کے نزدیک سے گزرنے والے دیگر بحری جہازوں پر ڈرون حملے کیے۔ ان کارروائیوں کےنتیجے کے طور پر کئی بڑی شپنگ کمپنیوں نے آبنائے مندب میں اپنی سرگرمیوں کو معطل کر دیا ۔ انہی حوثی خطرات کے خلاف تجارتی جہاز رانی کی حفاظت کے لیے امریکی بحری اتحاد کو آپریشن ”پراسپرٹی گارڈین‘‘ کا نام دیا گیا۔
امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنے زیر قیادت 38 ارکان پر مشتمل کمبائنڈ میری ٹائم فورسز یا (سی ایم ایف) کے تمام ارکان کو حوثیوں کے خلاف بنائے گئے اتحاد میں شمولیت کے لیے مدعو کیا۔ تاہم اب تک صرف بحرین، کینیڈا، فرانس، اٹلی، ہالینڈ، ناروے، اسپین، سیشلز اور برطانیہ سمیت نو ممالک نے اس نئے اتحاد میں شمولیت اختیار کی ہے۔ تاہم اب سب سے بڑا سوالیہ نشان اس اتحاد میں مشرق وسطیٰ کی کسی بڑی بحری طاقت کی عدم موجودگی ہے۔
صرف بحرین مشرق وسطیٰ کا وہ واحد ملک ہے، جو اس اتحاد کا حصہ بنا ہے لیکن یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ مشرق وسطی ٰ میں امریکی بحری بیڑے کا مرکزی اڈہ اسی چھوٹی سی خلیجی ریاست میں قائم ہے۔
مصر کیلئے کھونے کو بہت کچھ
نہر سوئز مصر کی ملکیت ہے اور پہلے ہی معاشی بحران کے شکار اس ملک کے لیے سالانہ 10 بلین ڈالر تک کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ مصر بھی سی ایم ایف کا رکن ہے۔ آپریشن پراسپیرٹی گارڈین سی ایم ایف کی ٹاسک فورس 153 کی سرپرستی میں کام کرے گا، جو بحیرہ احمر کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ایران کی نگرانی اور صومالیہ میں قزاقوں کا مقابلہ کرنے پر توجہ مرتکز رکھے گی۔
مصر نے گزشتہ سال کے آخر میں ٹاسک فورس 153 کی کمان سنبھالی تھی۔ اگرچہ بحیرہ احمر کی صورتحال کی وجہ سے نہر سوئز کی بندش کی وجہ سے مصر کو لاکھوں ڈالرکا نقصان ہو رہا ہے لیکن قاہر حکومت نے حوثیوں کے حملوں پر تنقید نہیں کی ہے اور نہ ہی انہوں نے کھلے عام اس نئے امریکی بحری اتحاد میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ ایسا غالباً مصر کی غزہ کے تنازع سے قربت اور عام طور پر عرب دنیا میں اس معاملے کے بارے میں حساسیت کی وجہ سے ہوا ہے۔
سعودی عرب: حوثیوں کے ساتھ امن مذاکرات
دوسری جانب سعودی عرب بھی امریکی زیر قیادت سی ایم ایف کا رکن ہے۔ تاہم سعودی عرب بھی حال ہی میں ایک طرف حوثیوں اور دوسری طرف حوثیوں کے مدد گار ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔ سعودی عرب 2015 سے یمن کی خانہ جنگی میں حوثیوں کے خلاف فوجی اتحاد کی قیادت کرتا آیا ہے۔ تاہم اب ریاض حکومت حال ہی میں اس تنازعے سے خود کو نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق سعودیوں نے امریکی بحری اتحاد میں اس لیے شمولیت اختیار نہیں کی ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس سے ان کے حوثیوں کے ساتھ امن مذاکرات کو نقصان پہنچے گا اور ممکنہ طور پر ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو بھی نقصان پہنچے گا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ حوثی سعودی تیل کے ذخائر پر دوبارہ حملہ کریں، جیسا کہ انہوں نے 2019 کیا تھا۔ حوثیوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر متحدہ عرب امارات یا سعودی عرب نئے بحری اتحاد میں شمولیت اختیار کی تو وہ ان پر بھی حملے کریں گے۔
متحدہ عرب امارات کا سخت نقطہ نظر
متحدہ عرب امارات نے بھی امریکی بحری اتحاد میں شمولیت اختیار نہیں کی لیکن وہ تمام حوالوں سے حوثیوں کے خلاف زیادہ سخت گیر موقف میں دلچسپی رکھتا ہے۔
امریکی بحریہ کے ایک ریٹائرڈ ایڈمرل جیمز سٹاوریڈس نے اس ہفتے بلومبرگ کے ادارتی صفحے کے لیے اپنی ایک تحریر میں لکھا کہ یو اے ای اور سعودی عرب کے ”حوثیوں کے مسئلے سے نمٹنے کے طریقہ کار کے بارے میں مختلف خیالات ہیں۔‘‘ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا متحدہ عرب امارات باغیوں کے خلاف سخت فوجی کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ ریاض زیادہ محتاط طریقہ چاہتا ہے۔ انہیں اس جھگڑے کو ایک طرف رکھنے کے لیے قائل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اطالوی انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل پولیٹیکل اسٹڈیز کی ایک محقق ایلونورا آردیمگنی نے اس ہفتے بیروت کے اخبار کو بتایا، ” متحدہ عرب امارات مشرق وسطیٰ میں واشنگٹن کے سکیورٹی ردعمل سے مطمئن نہیں ہے، جسے حالیہ برسوں میں بہت کمزور سمجھا جاتا ہے۔ وہ ایک مضبوط ردعمل کے حق میں ہیں، جس کا مقصد حوثیوں کی فوجی صلاحیتوں کو کم کرنا اور تجارتی جہاز رانی کے خطرے کو کم کرنا ہے کیونکہ، سعودیوں کے برعکس، وہ دو طرفہ مذاکرات کا حصہ نہیں ہیں۔‘‘
امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے منگل کو ایک پریس بریفنگ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی اس نئے بحری اتحاد میں عدم شمولیت پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا، ”کچھ ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اس میں حصہ لینے اور اس کا حصہ بننے پر رضامندی ظاہر کی ہے لیکن انہیں فیصلہ خود کرنا ہے، وہ خود مختار قومیں ہیں۔‘‘