کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی)’تربت سے اسلام آباد تک کا سفر ہم نے اس لیے نہیں کیا تھا کہ ہم پر تشدد ہو۔ ہم اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ آپ راستے کھولیں گے لیکن آپ نے انھیں نہ کھول کر ثابت کیا کہ آپ فاشسٹ ہیں۔‘
بلوچ یکہجتی کمیٹی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ نے یہ بات اسلام آباد پولیس سے مخاطب ہو کر کہی جس کے بعد انھیں اور ان کے ساتھیوں کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق کار سرکار میں مداخلت، سڑکوں کو بلاک کرنے اور دیگر الزامات کے تحت مارچ کے درجنوں شرکا کو بدھ کو رات گئے گرفتار کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا چھ دسمبر کو بلوچستان کے شہر تربت سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ مارچ بدھ کی شام اسلام آباد کی حدود میں پہنچا تھا۔
مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں؟
بلوچ یکجہتی مارچ میں شامل خواتین جنھیں پولیس نے بدھ کی رات حراست میں لیا ہے۔
رواں سال نومبر میں تربت میں بالاچ بلوچ سمیت چار نوجوانوں کو سی ٹی ڈی بلوچستان نے مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ لواحقین کا الزام ہے کہ یہ تمام افراد زیر حراست تھے اور ان کا ماورائے عدالت اور جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا ہے۔
بالاچ کی ہلاکت کے بعد تربت کے فدا چوک پر لواحقین نے میتوں سمیت دھرنا دیا۔ سی ٹی ڈی حکام کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی یقین دہانی کے بعد میتوں کی تدفین کی گئی تاہم دھرنا جاری رہا جس کے دوران تربت اور گودار سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں میں بھی احتجاج کیا گیا۔
اس احتجاج میں سرگرم گلزار دوست نے بی بی سی کو بتایا کہ ہمارے مطالبات تھے کہ بالاچ پر جو ایف آئی آر درج کی گئی اور الزام لگائے گئے تھے وہ واپس لے کر خاندان سے معافی مانگی جائے، بلوچستان میں جعلی پولیس مقابلوں کا سلسلہ بند کیا جائے اور سی ٹی ڈی کو غیر فعال کیا جائے۔
ان مظاہرین کے دیگر مطالبات میں مبینہ ڈیتھ سکواڈز کا خاتمہ، لاپتہ افراد کی بازیابی اور مستقبل میں جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو روکنا شامل تھا۔
اس احتجاج کے ردعمل میں بلوچستان ہائیکورٹ نے سی ٹی ڈی کے چار اہلکاروں کو معطل کرنے کے احکامات دیے تھے تاہم اُن کی گرفتاری اب تک عمل میں نہیں آئی۔
اسلام آباد کی جانب احتجاجی مارچ کیوں کیا گیا؟
مطالبات منظور نہ ہونے کے باعث تربت سے سمی بلوچ اور گلزار دوست کی قیادت میں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے چھ دسمبر کو اسلام آباد کی جانب مارچ کا آغاز کیا۔ جب یہ مارچ خضدار پہنچا تو کنٹینر لگا کر اس کا راستہ روکا گیا لیکن احتجاج اور مزاحمت کے بعد یہ مارچ آگے بڑھنے میں کامیاب ہو گیا تاہم خضدار میں مارچ کے منتظمین اور شرکا کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
یہ مارچ کوہلو سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا جب دارالحکومت کوئٹہ پہنچا تو وہاں بھی انتظامیہ کی جانب سے رکاوٹیں ڈالی گئیں اور شرکا کو پریس کلب نہیں جانے نہیں دیا گیا جس کے بعد شرکا نے کوئٹہ کی بلوچ آبادیوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔
کوئٹہ سے مارچ جب صوبہ پنجاب کے شہر ڈی جی خان پہنچا تو پنجاب پولیس نے شرکا کی گاڑیاں تحویل میں لے کر انھیں آگے جانے سے روک دیا جس پر شرکا نے ڈی جی خان میں دھرنا دیا۔ ڈی آئی خان پہنچنے پر سابق رکن اسمبلی علی وزیر اور پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین کے خاندان نے اس مارچ کے شرکا کا استقبال کیا۔
بلوچ یکہجتی کمیٹی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ کہتی ہیں کہ اسلام آباد میں سپریم کورٹ ہے، قومی اسمبلی ہے، سینیٹ ہے، جہاں فلسطین اور کشمیر کی بات ہوتی ہے مگر ریاست کے شہریوں کی بات نہیں ہوتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اسلام آباد سے کوئی توقع نہیں ہے۔ ہمیں اداروں پر بھروسہ نہیں ہے۔ ہم پہلے آئے تھے سپریم کورٹ اور قومی اسمبلی سے مطالبہ کرنے لیکن اب ہمارا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ کی ورکنگ کمیٹی کے ذریعے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی جائے جو بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کی رپورٹ دے۔‘
مارچ کی قیادت کون کر رہا ہے؟
تربت سے اسلام آباد تک اس مارچ کے سرگرم رہنماؤں میں ماہ رنگ بلوچ، سمی بلوچ اور گلزار دوست شامل ہیں جن میں سے ماہ رنگ اور سمی کم عمری سے اس قسم کے احتجاج اور مظاہروں میں شریک ہوتی رہی ہیں۔
ماہ رنگ بلوچ کا تعلق قلات سے ہے۔ ان کے والد عبدالغفار واپڈا میں ملازمت کے ساتھ قوم پرست سیاست سے منسلک تھے وہ سنہ 2006 میں پہلی مرتبہ لاپتا ہوئے اور کچھ عرصے کے بعد رہا کیے گئے۔ تین سال کے بعد 2009 میں وہ دوبارہ لاپتہ ہوئے اور 2011 میں ان کی مسخ شدہ لاش ملی۔
سنہ 2016 میں ماہ رنگ کے بھائی کی مبینہ جبری گمشدگی کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد سے ایک عام گھریلو لڑکی اپنے جیسے دوسرے متاثرین کے لیے بھی آواز اٹھانے کے لیے میدان میں آ گئیں۔ اس عرصے میں انھوں نے طلبہ سیاست میں بھی قدم رکھا اور بولان میڈیکل کالج میں زیر تعلیم رہیں۔
سمی بلوچ کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو سنہ 2009 میں مبینہ طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔ اُس وقت سمی کی عمر گیارہ سال تھی جب وہ پہلی بار کوئٹہ پریس کلب احتجاج کے لیے پہنچیں۔ اس دن سے لے کر آج تک وہ اور ان کی چھوٹی بہن مہلب بلوچ مسلسل جدوجہد میں ہیں اور کوئٹہ سے کراچی تک لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں۔
سمی بلوچ نے اس سے قبل ماما قدیر بلوچ کے ساتھ بھی مارچ کیا تھا جب وہ کوئٹہ سے پیدل اسلام آباد جانے کے لیے روانہ ہوئے تھے۔
گلزار دوست بی ایس او میں سرگرم رہے ہیں۔ کوہ مراد کے سید خاندان سے تعلق رکھنے والے یہ نوجوان اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے جب انھوں نے تربت سے کوئٹہ تک پیدل مارچ کیا تھا۔ تربت میں حالیہ واقعات کے بعد ہونے والے احتجاجوں میں بھی بھی ان کا متحرک کردار رہا۔
ماضی کے مارچ اور اس مارچ میں فرق
بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کی جانب سے اکتوبر 2013 میں کوئٹہ سے اسلام آباد تک مارچ کیا گیا تھا، اس کی سربراہی عبدالقدیر عرف ماما قدیر بلوچ کر رہے تھے۔ ان کے بیٹے جلیل ریکی لاپتہ ہوئے اور اُس کے بعد ان کی لاش ملی تھی۔
ماما قدیر کا مارچ کوئٹہ سے آر سی ڈی شاہراہ سے ہوتا ہوا کراچی پہنچا اور یہاں سے سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا پنجاب میں داخل ہوا اور جی ٹی روڈ سے اسلام آباد پہنچا تھا۔
یہ پیدل مارچ کیا گیا تھا اس مارچ میں بھی سمی بلوچ اور بچے حیدر سمیت لاپتہ افراد کے لواحقین شامل تھے۔
ماما قدیر کے مارچ کے برعکس بلوچ یکجہتی کمیٹی کا مارچ گاڑیوں کے ذریعے کیا گیا جو تربت سے کوئٹہ اور پھر پنجاب کے ان علاقوں سے گزرا جہاں بلوچ قبائل آباد ہیں۔ اس کے بعد خیبر پختونخوا اور وہاں سے اسلام آباد اس کی منزل تھی۔
گذشتہ مارچ کے مقابلہ میں اس مارچ میں لوگوں کی تعداد زیادہ تھیں جبکہ اس کی قیادت خواتین کر رہی تھیں اس مارچ کو زیادہ پذیرائی ملی اور اس مارچ کے شرکا نے جلسوں سے بھی خطاب کیا۔
بقول ماہ رنگ بلوچ کے لوگوں کی ہمدریاں ان کے ساتھ تھیں اس وقت جب انتخابی جلسے ہو رہے ہیں، ہمارے جلسے اس سے بڑے تھے، کوئی ہمیں کمبل دیتا تو کوئی اپنے گھر میں ٹھہراتا تھا۔
پاکستان میں جبری گمشدگیوں کی تاریخ
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنٹسی انٹرنیشنل کے مطابق جبری گمشدگی کا شکار وہ لوگ ہیں جو عملی طور پر غائب ہو چکے ہیں۔ وہ اس وقت لاپتہ ہو جاتے ہیں جب ریاستی اہلکار انھیں کسی گلی یا گھروں سے پکڑتے ہیں اور پھر یہ بتانے سے انکار کرتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں۔
ایمنٹسی کے مطابق بعض اوقات مسلح غیر ریاستی عناصر، جیسے مسلح اپوزیشن گروپوں کی طرف سے گمشدگی کا ارتکاب کیا جا سکتا ہے اور یہ بین الاقوامی قانون کے تحت جرم ہے۔
پاکستان میں ’جبری گمشدگیوں‘ کے مسئلے نے سنہ 2000 میں اس وقت زور پکڑا جب افغانستان پر امریکہ کے حملے کے بعد مذہبی اور مسلکی جماعتوں کے کارکنوں اور ہمدردوں کی گمشدگیاں ہونے لگیں۔
بلوچستان میں بزرگ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کی فوجی آپریشن میں ہلاکت بعد اس میں تیزی آئی۔
سپریم کورٹ سے لے کر چاروں صوبوں میں موجود ہائی کورٹس میں لاپتہ افراد کی جبری گمشدگیوں کے خلاف درخواستیں دائر ہیں۔ ہر درخواست پر وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کو نوٹس ہوتے ہیں جن میں اکثریت کے جوابات یہ ہی آتے ہیں کہ متعلقہ شخص ان کی تحویل میں نہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہی صرف 50 کے قریب بلوچ طلبا کی گمشدگی سے متعلق کیس زیر سماعت ہے، جہاں گذشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ 22 بلوچ طلبا کو ڈھونڈ لیا گیا ہے لیکن 28 تاحال لاپتہ ہیں اور یہ کہ تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
سنہ 2011 میں جبری گمشدگیوں کا پتا لگانے کے لیے کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ کمیشن چاروں صوبوں کے کئی شہروں میں درخواستوں کی سماعت کر چکا ہے اور اس کی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ ساڑھے آٹھ ہزار کے قریب لاپتہ افراد کے لواحقین نے کمیشن سے رجوع کیا۔
کمیشن چاروں صوبوں کے کئی شہروں میں درخواستوں کی سماعت کر چکا ہے اور اس کی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ 1977 جبری طور پر لاپتہ افراد گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔
عالمی کنونشن
جبری گمشدگی سے تمام افراد کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی کنونشن 2010 میں نافذ العمل ہوا، جس کا مقصد جبری گمشدگیوں کو روکنا، سچائی سے پردہ اٹھانا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ لواحقین اور متاثرین کے خاندانوں کو انصاف، سچائی اور معاوضہ ملے۔
یہ کنونشن اقوام متحدہ کی طرف سے منظور کیے گئے انسانی حقوق کے سب سے مضبوط معاہدوں میں سے ایک ہے تاہم پاکستان نے اس کنونشن کی توثیق نہیں کی ہے۔
حکومت پاکستان ان جبری گمشدگیوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے۔ موجودہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ، جو ماضی میں بلوچستان حکومت کے ترجمان بھی رہے چکے ہیں، جبری گمشدگیوں کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
حال ہی میں ڈان نیوز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیوں اور حراست میں لینے میں فرق ہے۔