برلن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) جرمنی میں وفاقی دفتر استغاثہ کی طرف سے دو شامی باشندوں پر شام میں جنگی جرائم کے ارتکاب کی فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ ملزمان پر الزام ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیم داعش کے ارکان کے طور پر دمشق میں جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے تھے۔
جرمن دارالحکومت برلن سے ہفتہ تیئیس دسمبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق ان دونوں شامی شہریوں پر فرد جرم کل جمعہ بائیس دسمبر کو عائد کی گئی۔ ان دونوں کے نام محمد اے اور اسماعیل کے بتائے گئے ہیں۔
جرمنی میں پرسنل ڈیٹا پرائیویسی کے قوانین کے تحت دفتر استغاثہ نے ان ملزمان کے پورے نام بتانے کے بجائے صرف ان کے پہلے نام اور دوسرے یا خاندانی ناموں کے ہجوں کے صرف پہلے حروف ہی بتائے ہیں۔
وفاقی دفتر استغاثہ کے مطابق ان دونوں مشتبہ ملزمان کو اسی سال مارچ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ وہ تاحال جاری شامی خانہ جنگی کے دوران قریب ایک عشرہ پہلے دمشق میں داعش کے جنگجوؤں کے طور پر جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے تھے۔
انسانوں کو یرغمال بنانے کے واقعات اور ہلاکتیں
فیڈرل پراسیکیوٹرز آفس کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ محمد اے اور اسماعیل کے پر الزام ہے کہ وہ ”انسانوں کو یرغمال بنانے کے ایسے واقعات کے مرتکب ہوئے، جن کا نتیجہ موت کی صورت میں نکلا تھا۔‘‘
جرمنی میں ان کی گرفتاری اس ملکی قانون کی وجہ سے ممکن ہوئی، جس کے تحت وفاقی جمہوریہ جرمنی میں مقیم کسی بھی ایسے ملزم کو گرفتار کیا جا سکتا ہے، جس پر کسی غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کا رکن ہونے یا رہنے کا الزام ہو۔
جرمن حکام کے مطابق ان دونوں شامی شہریوں پر انسانوں کو قتل کرنے کے علاوہ یہ الزام بھی ہے کہ وہ ایسے انسانوں کی ہلاکتوں کے بھی مرتکب ہوئے، جنہیں بین الاقوامی قانون کے تحت تحفظ حاصل تھا۔
داعش میں شمولیت کب اور کیسے؟
جرمن تفتیشی ماہرین کی طرف سے کی گئی اب تک کی تفتیش کے نتائج کے مطابق محمد اے زیادہ سے زیادہ بھی 2013ء میں ‘اسلامک سٹیٹ‘ یا داعش کہلانے والی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوا تھا اور وہ 200 تک جنگجوؤں کے ایک گروپ کا کمانڈر بھی تھا۔
2013ء میں ہی اس نے مبینہ طور پر داعش میں اپنے زیر کمان دیگر شدت پسندوں کے ساتھ مل کر داعش کے دو مخالفین کو اغوا کیا تھا۔ ان یرغمالیوں کو بعد ازاں اسی دہشت گرد تنظیم کے ایک حراستی مرکز میں 10 دیگر یرغمالیوں کے ساتھ ‘قتل‘ کر دیا گیا تھا۔
اسماعیل کے پر الزام ہے کہ اس نے بھی داعش میں ایک جنگجو کے طور پر 2013ء میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ محمد اے کے ساتھ مل کر اغوا اور انسانی قتل کے واقعات میں شامل رہا تھا۔
سماعت کا فیصلہ ڈسلڈورف کی عدالت کرے گی
ان دو نوں زیر حراست شامی ملزمان پر باقاعدہ فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد یہ فیصلہ جرمن شہر ڈسلڈورف کی ایک ریاستی عدالت کرے گی کہ آیا ان کے خلاف جنگی جرائم کے الزام میں باقاعدہ مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
2015ء اور 2016ء کے دوران یورپ میں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کے نقطہ عروج پر جرمنی نے اپنے ہاں پناہ کے لیے لاکھوں شامی شہریوں کو ملک میں داخلے کے اجازت دے دی تھی۔
ان میں سے اب تک کئی ایسے شامی پناہ گزینوں کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے، جن پر یہ الزام تھا کہ وہ اپنے ملک میں شدید نوعیت کے جرائم، جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہوئے تھے۔
ایسے شامی ملزمان کے خلاف جرمنی میں چلائے جانے والے اہم ترین مقدمات میں سے ایک شامی فوج کے ایک سابق کرنل کے خلاف چلایا جانے والا مقدمہ بھی تھا۔
شامی فوج کے اس سابق کرنل کو گزشتہ برس جنوری میں ایک جرمن عدالت نے مجرم قرار دے کر سزا سنا دی تھی۔ اس پر الزام تھا کہ وہ شامی خانہ جنگی کے دوران دمشق میں انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب ہوا تھا۔