اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان میں وفاقی حکام نے پیرکے روز تصدیق کی کہ انہوں نے ان 290 سر گرم کارکنوں کو رہا کر دیا ہے جنہیں اسلا م آباد میں حراست میں لیا گیا تھا۔ تاہم بلوچ یکجہتی کونسل نے اس بیان کو غلط قرار دیتے ہوئے اس کی تردید کی ہے۔
بلوچ یکجہتی کونسل کے بیان میں کہا گیا ہےکہ طویل جدوجہد کے بعد اب تک 160 سے زیادہ بلوچ مظاہرین کو رہا کیا گیا ہے۔اسلام آباد پولیس کا بیان غلط اور غیر منطقی ہے۔
بیان کے مطابق 100 سے زیادہ افراد اب بھی پولیس کی حراست میں ہیں اور ان میں سے کچھ لاپتہ ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس انہیں اور میڈیا کو درست معلومات فراہم نہیں کر رہی۔
بیان کے الفاظ میں،’’ڈاکٹر ظہیر بلوچ لاپتہ ہیں ہمیں ان کی زندگی کی فکر ہے۔‘‘
یہ کارکن اپنے آبائی صوبے بلوچستان میں مبینہ ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے وفاقی دارالحکومت آنےوالے قافلے میں شامل تھے۔
اسلام آباد سے ایاز گل نے بتایا ہے کہ پاکستان کی وزارت داخلہ نے X پر ایک بیان میں بلوچ کارکنوں کی بڑے پیمانے پر رہائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’پرامن احتجاج ہر ایک کا حق ہے لیکن کوئی بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ ‘‘
وسری جانب اس ریلی میں شامل ایک ایکٹوسٹ مہرنگ بلوچ نے 24 دسمبر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’’ہمارے دوست کل رات سے اڈیالہ اور اٹک جیلوں کے باہر موجود ہیں۔ جن لوگوں کی ضمانتیں ہوئی تھیں انہیں ابھی تک رہا نہیں کیا گیا۔ انسداد دہشت گردی پولیس غلط بیان دے رہی ہے جبکہ وہ ہمارے 100سے زیادہ دوستوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دے رہی۔‘‘
Our friends have been outside Adiala & Attock jails since last night; the friends who were granted bail are still not being released. The @ICT_Police are giving false statements. While they are still not giving us any info about the whereabouts of more than 100s of our friends. https://t.co/1Wjb4Onqr5
— Mahrang Baloch (@MahrangBaloch_) December 24, 2023
اس احتجاجی قافلے میں خواتین، مرد اور بچے شامل تھے جو درجنوں گاڑیوں میں 1600 کلومیٹر کا سفر طے کر کے گزشتہ جمعرات کو تربت سے اسلام آباد پہنچا تھا۔
بلوچستان سے اس قافلے کی آمد کا مقصد 24 سالہ بالاچ مولا بخش کی گزشتہ ماہ پولیس حراست میں ہونے والی موت کی طرف توجہ مبذول کرانا تھا۔
اسلام آباد میں موجود بلوچ طلباء اور کارکنان بھی ریلی میں شامل ہو گئے تھے۔
اسلام آباد میں پولیس نے ریلی کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھیوں اور واٹر کینن کا استعمال کیا تاکہ ریلی کو شہر کے ہائی سیکیورٹی والے “ریڈ زون” کی طرف بڑھنے سے روکا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ مظاہرین کی گرفتاری کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران پولیس کو حراست میں لی گئیں تمام خواتین اور بچوں کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو گرفتار افراد سے متعلق تحریری طور پر آگاہ کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔
اس حساس علاقے میں اہم سرکاری عمارتیں اور سفارت خانوں کی رہائش گاہیں ہیں۔ پولیس نے اس موقع پر گرفتاریاں بھی کیں۔اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ملک گیر احتجاج سامنے آیا اور انسانی حقوق کے گروپوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مظاہرین کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور ان کی طویل عرصے سے جاری شکایات کو دور کیا جائے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان یا ایچ آر سی پی ایک خود مختار نگران ادارہ ہے اور اس کا کہنا ہے کہا کہ اسے حیرت ہے کہ ریاست نے پرامن خواتین، بچوں اور بزرگ مظاہرین پر بلاجواز طاقت کے استعمال سے قابو پانے کی کوشش کی۔
ایچ آر سی پی نے جمعرات کو کہا کہ ’’پرامن جتماع اور آزادی اظہار کے آئینی حق کا استعمال کرنے والے بلوچ شہریوں کے ساتھ یہ سلوک ناقابل معافی ہے۔‘‘
پاکستانی میڈیا کے مرکزی دھارے نے احتجاجی مارچ اور اس کے نتیجے میں پولیس کی کارروائی کو نظر انداز کیا جبکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس صورتحال کو نمایاں طور پر اجاگر کیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت کو ریلی کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کرنے اور صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے وفد تشکیل دینے پر آمادہ کیا گیا۔ احتجاجی مارچ کے منتظمین بلوچ یکجہتی کمیٹی یا بلوچ یونٹی کمیٹی کی مرکزی رہنما مہرنگ بلوچ نے پولیس کارروائی کی مذمت کی اور صحافیوں کو بتایا تھا کہ ہفتے کے آخر میں کئی خواتین اہلکاروں نے ان پر لاٹھیوں سے حملہ کیا۔
انسداد دہشت گردی کے صوبائی حکام نے دعویٰ کیا تھاکہ انہوں نے 20 نومبر کو بالاچ مولا بخش نامی درزی کو گرفتار کیا تھا جن کے پاس پولیس کے دعوے کے مطابق دھماکہ خیز مواد تھا۔
انہیں اگلے روز عدالت میں پیش کیا گیا لیکن 23 تاریخ کو سیکورٹی اہلکاروں اور عسکریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں وہ ہلاک ہوگئے۔
اس واقعے میں تین دیگر افراد بھی مارے گئے جن کے بارے میں حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ باغی تھے۔
بالاچ مولا بخش کے اہل خانہ نے سرکاری دعوے کو مسترد کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ اکتوبر سے پولیس کی حراست میں تھےاور انہیں جعلی مقابلے میں ہلاک کیا گیا۔