اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے مبینہ جبری گمشدگیوں کے خلاف اسلام آباد میں آئے احتجاجیوں کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرا ان لواحقین سے جھگڑا نہیں ہے میرا پورا پاکستان سے گلہ ہے جنھیں بات ہی ابھی تک سمجھ نہیں آئی ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے ایک پریس کانفرنس میں پولیس کی جانب سے بلوچ مظاہرین کو پسپا کرنے کی کوشش کے حوالے سے پوچھا گئے سوال پر انتہائی غیر معمولی انداز میں ردِ عمل دیتے ہوئے بلوچوں کی حمایت کرنے والوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
خیال رہے کہ وفاقی دارالحکومت میں پچھلے کئی دنوں سے بلوچ مظاہرین نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھے ہیں۔
یہ خاندان بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہیں، جن میں زیادہ تر تعداد لڑکیوں، ضعیف خواتین اور بچوں کی ہے۔
نگران وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی یہ ہے کہ کچھ لوگ اسے غزہ اور فلسطین کی صورتحال سے بھی جوڑ رہے تھے اور اس بیہودگی کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ کیا آپ پاکستان کی ریاست کو اسرائیل سے ملا رہے ہیں۔
’ہمارا جھگڑا لواحقین سے نہیں ہے، وہ پہلے بھی آتے رہے ہیں، ابھی بھی کر رہے ہیں اور اس کے بعد بھی کریں گے۔ میرے علم میں آ چکا تھا کہ پولیس اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان الجھاؤ سامنے آیا ہے لیکن اسے بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بہت سے ایسے لوگ جو یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ حقوق کی مہم کے حوالے سے ہیرو بن جائیں گے، تو ایسے ہیرو نہیں بن سکتے۔
’بلوچستان میں مسلح تنظیمیں ہیں جیسے بی ایل ایف، بی ایل اے، بی آر اے۔ یہ مسلح تنظیمیں پاکستان کو توڑنے کے لیے مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں۔ اگر آپ یہ سوال جو مجھ سے پوچھ رہے ہیں اس کے بعد وہاں گئے تو آپ کو بھی گولی مار دیں گے۔ وہ اس بات کا عملی طور پر اظہار کرتے آ رہے ہیں اور تین سے پانچ ہزار بندوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ بندے ہلاک تو ہوئے ہیں ناں، ان کا قاتل کون ہے۔ ان دہشتگردوں کے ساتھ جب سکیورٹی فورسز کی جھڑپیں ہوتی ہیں تو ظاہر ہے ان کے بھی لواحقین ہوتے ہیں ہم ان کے احتجاج کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن لواحقین سے جڑے لوگوں کی دہشتگردی کرنے کے حق کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جو جو لوگ ان کے حمایتی ہیں ان سے میری درخواست ہے کہ وہ آئیں اور بی ایل اے اور بی ایل ایف کا حصہ بن جائیں تاکہ ہم بھی واضح ہو جائیں کہ آپ کہاں کھڑے ہیں۔
’ہماری لواحقین سے ہرگز لڑائی نہیں ہے لیکن یہ جو خواہ مخواہ ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں ان سے ہمیں مسئلہ ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’نہ یہ 1971 ہے نہ ہی یہ بنگلہ دیش بننے جا رہا ہے۔ میرا جھگڑا ذات کا نہیں ریاست کا ہے مسلح نتظیموں سے ہے بلوچوں سے نہیں ہے۔
’نہیں پتہ ان لوگوں کہ یہ دہشت گرد ہیں؟ کہتے ہیں کہ ان کو عدالتوں میں پیش کریں، 90 ہزار آدمی یہاں قتل ہو گئے ہیں ابھی تک نو مجرموں کو سزا نہیں ہوئی ہے۔ کور کمانڈر کانفرنس میں اس عدالتی نظام کو ٹھیک کرنا تھا، یا واپڈا نے کرنا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’قوانین اس لیے ہوتے ہیں کہ ان (دہشتگردوں) کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے، اس لیے نہیں ہوتے کہ انھیں وہاں سے چھوڑ دیا جائے۔
’اگر کسی کو جبری گمشدگیوں کا مسئلہ ہے تو جائیں ان عدالتوں میں ہم نے روکا ہے؟ ہمیں بھی اعتماد ہے ان عدالتوں پر ان کو بھی ہے تو جائیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’عدالتی نظام ٹھیک نہیں ہے، 80، 90 قتل یہ لوگ کرتے ہیں، انڈیا سے پیسے لے کر کرتے ہیں، را کی فنڈنگ کے ساتھ کرتے ہیں۔
’میرا ان لواحقین سے جھگڑا نہیں ہے میرا پورا پاکستان سے گلہ ہے جنھیں بات ہی ابھی تک سمجھ نہیں آئی ہے، میرا جعلی ہمدردوں سے مسئلہ ہے۔‘