پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات سے قبل اب تک خیبر پختونخوا میں سیاسی رہنماؤں پر تین حملے ہو چکے ہیں جبکہ متعدد تھریٹ الرٹس میں سیاستدانوں کو انتخابی مہم کے دوران محتاط رہنے کا کہا گیا ہے۔
پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد پاکستان میں پُرتشدد واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان الزام لگاتا ہے کہ ان پُرتشدد واقعات میں ملوث ٹی ٹی پی کو افغانستان میں عبوری حکومت تحفظ دیے ہوئے ہے تاہم افغانستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
ایک طرف پاکستان پُرامن انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک سینیئر طالبان وفد سے مذاکرات کر رہا ہے تو دوسری طرف آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیرِ صدارت فارمیشن کمانڈرز کانفرنس نے ایک ماہ قبل اعادہ کیا تھا کہ ملک کو ’غیر مستحکم کرنے کے لیے کام کرنے والے تمام دہشت گردوں، سہولت کاروں اور حوصلہ افزائی کرنے والے عناصر کے خلاف ریاست مکمل طاقت کے ساتھ نمٹے گی۔‘
پاکستان کی سابقہ حکومت کے دور میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات بھی ہوئے تاہم اس دوران پُرتشدد واقعات ہونے پر شدت پسندوں کے خلاف محدود پیمانے پر آپریشنز شروع کیے گئے جس سے کشیدگی میں اضافہ ہوا اور مذاکرات بے نتیجہ رہے۔
اب پاکستان میں انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں لیکن بعض علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے سیاستدان اور امیدوار کھل کر اپنی انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے پا رہے۔ پاکستان میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اس وقت حالات زیادہ کشیدہ ہیں جس کی وجہ سے تھریٹ الرٹس جاری کیے گئے ہیں۔
یہ تھریٹ الرٹس جمعیت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، عوامی نینشل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی خان اور مولانا فضل الرحمان کے بیٹے اسعد محمود کے بارے میں جاری کیے گئے ہیں۔
میرانشاہ اور باجوڑ میں حملے
شمالی وزیرستان میں حالات ایک عرصے سے کشیدہ ہیں۔ میر علی میں چند روز پہلے صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے چھ افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان قتل ہونے والے افراد کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ سب حجام تھے۔
بدھ کو شمالی وزیرستان میں نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کے سربراہ محسن داوڑ کے قافلے پر ایک ہی دن میں دو حملے ہوئے۔ یہ حملے میرانشاہ کے قریب گاؤں تپی میں ایک کارنر میٹنگ میں شرکت کے لیے جانے اور پھر واپسی پر ہوئے۔
این ڈی ایم کے کارکنوں کے مطابق مقامی لوگوں نے پولیس اہلکاروں کے ہمراہ حملہ آوروں کے خلاف جوابی کارروائی کی مگر حملہ آور فرار ہو چکے تھے۔
این ڈی ایم کے کارکنوں نے بتایا کہ جب حملہ ہوا اس وقت کارکنوں نے محسن داوڑ کو گھیرے میں لے لیا تھا اور پولیس کے ساتھ مقامی لوگوں نے حملہ آوروں کے خلاف جوابی کارروائی کی تھی۔
محسن داوڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ پُرتشدد واقعات مسلسل ہو رہے ہیں اور ایسا نہیں کہ یہ خطرہ انتخابات کے اعلان کے بعد ابھرا تاہم اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کی بڑی وجہ ’ریاست کی غیر واضح پالیسی ہے۔ وہ چاہے افغانستان کے بارے میں پالیسی ہو یا یہاں طالبان کے ساتھ مذاکرات۔۔۔ پاکستان کو بطور ریاست اپنی پالیسی کی اصلاح کرنی ہوگی۔¬
’اس مبہم پالیسی کی وجہ سے لوگ بھی پریشان ہیں۔ کبھی مذاکرات اور کبھی ان کے خلاف آپریشن کیے جاتے ہیں اور یہ سب دوحہ معاہدے (جس کے تحت غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہوا) کے بعد سٹریٹجک گریٹ پلان پر کام ہو رہا ہے۔‘
بدھ کو ہی باجوڑ میں جمعیت علما اسلام ف کے پی کے 19 سے صوبائی امیدوار قاری خیر اللہ کی گاڑی کے قریب دھماکہ ہوا جس میں کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ پولیس کے مطابق دھماکہ خیز مواد سڑک کنارے نصب کیا گیا تھا۔
باجوڑ میں جمعیت کے رہنماؤں اور کارکنوں پر یہ کوئی پہلا حملہ نہیں بلکہ گذشتہ سال سے باجوڑ میں ان کے رہنماؤں اور کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
باجوڑ میں چند روز پہلے سکیورٹی فورسز نے ایک مقام پر کارروائی کی جس میں تین شدت پسند ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ گذشتہ سال ستمبر میں جمعیت علما اسلام کے ایک جلسے میں خود کش حملہ ہوا جس میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
تھریٹ الرٹ کیوں جاری ہوئے؟
پاکستان میں کشیدہ حالات کے پیش نظر اکثر تھریٹ الرٹ کا اجرا کیا جاتا ہے۔
گذشتہ سال ستمبر میں چترال میں شدت پسندوں کے حملے کا تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا تھا اور اس میں مکمل تفصیل بیان کی گئی تھی کہ شدت پسندوں کا ایک گروہ افغانستان کی جانب سے چترال کے چند مقامات پر حملہ کرسکتا ہے۔ اس الرٹ میں اس گروپ کے کمانڈروں کے نام تک درج کیے گئے تھے۔
حالیہ دنوں میں جب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تو تین تھریٹ الرٹ سامنے آئے ہیں جن میں سے ایک میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ مولانا فضل الرحمان اور ایمل ولی خان پر حملہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے وزارت داخلہ کی جانب سے مرکز اور تمام صوبوں میں حکام سے کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں کو مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کے بیٹے اور سابق رکن قومی اسمبلی اسعد محمود کو بھی ایک خط میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ انھیں دوران سفر یا رہائشگاہ میں ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے، لہذا وہ غیر ضروری سفر اور اجتماعات سے گریز کریں۔
اسی طرح وسط دسمبر میں بھی ایک تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پندرہ سے بیس دہشت گرد ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کھوئی بہارہ میں کہیں موجود ہیں اور یہ پولیس تھانوں پر حملے کر سکتے ہیں۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مشتاق یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی اس طرح کے الرٹس جاری کیے گئے تھے لیکن اس مرتبہ صورتحال قدرے مختلف نظر آتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ جمعیت علما اسلام اور عوامی نیشل پارٹی کے ’اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب نہیں، طالبان کے ساتھ بھی ان جماعتوں کا کوئی اختلاف نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے واضح بھی کیا ہے کہ ’ان کے اہداف واضح ہیں اور وہ ’سیاستدانوں یا عام شہریوں پر حملے نہیں کرتے۔‘
دفاعی امور کے ماہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ کا کہنا تھا کہ انتخابات ضرور ہوں گے ’لیکن یہ انتخابات پُرتشدد ہو سکتے ہیں اور اس کے لیے موجودہ حکومت بھی مکمل تیار ہے۔‘
تھریٹ الرٹس کیسے جاری کیے جاتے ہیں؟
دفاعی ماہرین کے مطابق عام طور پر تھریٹ الرٹ انٹیلیجنس اداروں کی معلومات کی بنیاد پر تیار کیے جاتے ہیں اور اس کے لیے ادارے مکمل تحقیق کرتے ہیں۔
کالعدم تنظیم تحریک طالبان کی مثال دیتے ہوئے بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ کا کہنا تھا کہ ان کا ڈیرہ اسماعیل خان میں گروپ زیادہ مضبوط ہوا۔ ایسی کسی صورتحال کے پیش نظر انٹیلیجنس اداروں کی رپورٹ وزارت داخلہ کے حکام کو بھیج دی جاتی ہے اور پھر یہ الرٹ متعلقہ تحقیق کے بعد متعلقہ انتظامیہ اور پولیس کے علاوہ متعلقہ افراد کو بھی بھیج دی جاتی ہے۔
اگرچہ اس وقت علاقے میں حالات کشیدہ ہیں اور تھریٹ الرٹس بھی انھی کشیدہ حالات کی بنیاد پر جاری کیے جاتے ہیں تاہم سیاسی مبصرین یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ شدت پسندوں کی کارروائیوں اور الرٹس کی بنیاد پر کہیں انتخابات کی تاریخ تو آگے نہیں بڑھا دی جائے گی۔
اس پر محمود شاہ کا کہنا تھا کہ انتخابات تو ضرور ہوں گے کیونکہ یہ انتخابات کرانا ضروری ہے۔
مستعفیٰ ہونے سے قبل نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ الیکشن مہم کے دوران سیاستدانوں کے لیے سکیورٹی کے خطرات موجود ہیں۔ انھوں نے شوکت عزیز، بینظیر بھٹو اور ثنا اللہ زہری کی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں انتخابی مہم کے دوران سیاسی رہنماؤں پر حملوں کی ایک تاریخ ہے۔
دسمبر میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 2024 کے عام انتخابات میں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر پاکستانی فوج کے دستوں کی تعیناتی کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا۔
نگران وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت جے یو آئی کو سکیورٹی خطرات لاحق ہیں مگر ’ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تمام سیاسی رہنماؤں کو سکیورٹی فراہم کریں۔‘