اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) بھی پاکستان میں منظم ہو رہی ہے۔
پاکستان کی وزارت داخلہ نے یہ اعتراف سینیٹ میں جمع کرائے گئے ایک تحریری بیان میں کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کے بعد افغانستان میں ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے ٹی ٹی پی اور داعش کو مضبوط ہونے کا موقع ملا۔
داعش کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ شدت پسند تنظیم پاکستان میں قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس نے اقلیتوں اور شیعہ کمیونٹی پر حملوں کے ذریعے فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان کی وزارتِ داخلہ کی طرف سے یہ اعتراف ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان میں 2023 کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافے کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔
اسلام آباد میں قائم ایک غیر سرکاری تھنک ٹینک نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ 2023 میں پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 69 فیصد اضافہ ہوا۔
ان حملوں سے ہونے والی اموات میں 2022 کے مقابلے میں 81 فیصد اضافہ ہوا۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاک افغان بارڈر پر غیر قانونی آمدورفت روکنے کے لیے پاکستان نے سرحد پر باڑ نصب کی۔ لیکن ٹی ٹی پی اور بعض دیگر عسکریت پسند گروپ اس باڑ کو نقصان پہنچانے کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان نے پاک افغان سرحد پر غیر قانونی نقل و حرکت روکنے کے لیے 2017 میں لگ بھگ 26 سو کلومیٹر طویل اپنی مغربی سرحد جسے ڈیورنڈ لائن بھی کیا جاتا ہے پر باڑ نصب کرنے کا کام شروع کیا جو زیادہ تر مکمل ہو چکا ہے۔
پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر صفدر سیال کہتے ہیں کہ داعش بلوچستان کے بعض حصوں اور صوبہ خبیر پختونخوا کے باجوڑ اور مہمند کے علاقوں میں سرگرم ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ داعش نے گزشتہ برس باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جلسے میں دھماکے کی ذمے داری قبول کی تھی۔ اس حملے میں 120 افراد ہلاک اور 54 زخمی ہو گئے تھے۔
گزشتہ برس ستمبر میں مستونگ میں عید میلادالنبی کے جلوس میں ہونے والے دھماکے کی ذمے داری بھی داعش نے قبول کی تھی۔ دھماکے میں 55 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام نے پہلے کبھی باضابطہ طور پر داعش کی موجودگی کا اعتراف نہیں کیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ داعش کے پاس بڑے حملے کرنے کی صلاحیت ضرور موجود ہے، لیکن وہ ٹی ٹی پی کی طرح زیادہ منظم نہیں ہے۔
مشتاق یوسفزئی کے بقول داعش کے حامی اور ہمدرد پاکستان کے سابق قبائلی علاقوں میں موجود ہیں۔ ان کی تعداد کم ہے، لیکن یہ زیادہ منظم ہیں اور ان کے اہداف ٹی ٹی پی سے مختلف ہیں۔
مشتاق یوسفزئی کے بقول داعش فرقہ وارانہ انتشار پھیلانا چاہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کا ہدف اقلیتیں اور دیگر فرقوں کی عبادت گاہیں ہیں۔ اسی طرح وہ مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کو نشانہ بناتی ہے۔
‘پاکستان کا مسئلہ ٹی ٹی پی ہے داعش نہیں’
مشتاق یوسفزئی کے بقول ٹی ٹی پی کا معاملہ مختلف ہے کیوں کہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان نطریاتی طور پر ایک ہی سوچ کے حامل ہیں۔
اُن کے بقول ٹی ٹی پی کے بعض لوگ داعش میں شامل ضرور ہوئے تھے۔ لیکن داعش کے لوگ نظریاتی طور پر ٹی ٹی پی سے الگ ہیں۔
مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں کہ داعش کے بارے میں بین الاقوامی تشویش ہے اور پوری دنیا کو اس سے خطرہ ہے۔ لیکن پاکستان کے لیے زیادہ خطرہ داعش نہیں ہے بلکہ ٹی ٹی پی ہے۔
اُن کے بقول پاکستان کے افغانستان سے تعلقات خراب ہونے کی وجہ بھی ٹی ٹی پی ہی ہے۔
دفاعی امور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر کہتے ہیں کہ داعش کی سوچ بین الاقوامی ہے جب کہ ٹی ٹی پی کی کارروائی کا ہدف پاکستان ہے۔
صفدر سیال کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی کے لیے تمام عسکریت پسند ہی خطرہ ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ہر گروپ کے اپنے مقاصد ہیں، ٹی ٹی پی کے اہداف میں سیکیورٹی فورسز شامل ہیں جب کہ وہ قبائلی عمائدین اور سیاسی رہنماؤں کو بھی نشانہ بناتی ہے۔
اُن کے بقول ٹی ٹی پی کے مقابلے میں داعش کے پاس افرادی قوت اور آپریشنل استعداد کار نہیں ہے۔
صفدر سیال کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی مسلسل حملے کرتی ہے اور ان کا نیٹ ورک داعش کے مقابلے میں وسیع ہے۔