واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کا دائرہ پھیلنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ لبنان میں قائم عسکری گروپ حزب اللہ نے حماس کی حمایت میں اسرائیل پر حملے شروع کر دیے ہیں اور یمن میں حوثی باغی بحیرہ اسود میں تجارتی جہازوں کو ہدف بنا رہے ہیں جس سے بین الاقوامی تجارت کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں۔
It has been three months since the October 7 Massacre. Here’s our assessment of the progress of the war, which Hamas started and can end immediately by surrendering. pic.twitter.com/AGvKqoBPqo
— Eylon Levy (@EylonALevy) January 8, 2024
جنگ کے دائرے کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے امریکی وزیر خارجہ اسرائیل کے دورے پر ہیں۔ وہ خطے کے مسلم ممالک کا بھی دورہ کر چکے ہیں۔ وائس آف امریکہ کی ارم عباسی نے اس تناظر میں اسرائیلی حکومت کے ترجمان ایلون لیوی سے انٹرویو کیا اور پوچھا کہ اسرائیل خطے میں ایک بڑے تصادم سے بچنے کے لیے کیا کر رہا ہے۔
Started the morning with a pep-talk for the @UJAfedNY solidarity mission. We need the Diaspora to come bear witness, volunteer, support the families, and go back and fight for the release of the hostages and our right to win this war that Hamas declared on us. pic.twitter.com/dFHw5nRWS3
— Eylon Levy (@EylonALevy) January 9, 2024
لیوی کا کہنا تھا کہ ہم یقینی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ حزب اللہ کے ساتھ جنگ سے بچا جا سکتا تھا، لیکن اس دہشت گرد گروپ نے حماس کی طرف سے جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور یہ ہمارے قصبوں پر سینکڑوں راکٹ برسا رہا ہے جس کی وجہ سے 80 ہزار سے زیادہ اسرائیلیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے ہیں۔ ہمارے لیے یہ ناقابل برداشت صورت حال ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سن 2006 کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردار 1701 کے مطابق حز ب اللہ کو سرحد پر نہیں ہونا چاہیے۔ ہم حزب اللہ کو متنبہ کر چکے ہیں کہ اگر ہمیں اس سرحد پر جنگ میں گھسیٹا گیا تو اس کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم دو محاذوں پر لڑنا نہیں چاہتے لیکن ہم 80 ہزار اسرائیلیوں اور ملک کے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتے۔ حزب اللہ کو پیچھے ہٹ جانا چاہیے، یا پھر ہم اسے پیچھے دھکیلنے پر مجبور ہوں گے۔
اس سوال کے جواب میں کہ اس جنگ میں اب تک 23 ہزار کے لگ بھگ افراد مارے جاچکے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جو حماس کے رکن نہیں ہیں، جس سے ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، اسرائیلی ترجمان کا کہنا تھا کہ ہر شہری کی ہلاکت ایک المیہ ہے۔ لیکن یہ المناک جنگ حماس نے شروع کی ہے۔
ایلون لیوی نے بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حماس گنجان آباد علاقوں سے لڑ رہی ہے اور وہاں سے لوگوں کے انخلا کو روک رہی ہے۔ اس نے وہاں گھروں، اسکولوں، اسپتالوں اور مساجد کے نیچے زیر زمین اپنا فوجی انفراسٹرکچر بنایا ہوا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ حماس اپنے ہر شہری کی ہلاکت کی ذمہ دار ہے کیونکہ اس نے اسرائیل کے لیے عام شہریوں سے گزرے بغیر اس کے فوجی انفراسٹرکچر تک پہنچنامشکل بنا دیا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اگر حماس یہ جنگ شروع نہ کرتی تو کسی شہری کی ہلاکت نہ ہوتی اور اگر اب حماس ہتھیار ڈال دےاور یرغمالوں کو واپس کر دے تو جنگ بند ہو جائے گی۔
لیوی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے شہری ہلاکتیں بچانے کے لیے فضا سے 70 لاکھ پمفلٹ گرائے۔ 70 ہزار لوگوں کو انفرادی طور پر ٹیلی فون کالز کیں۔تقریباً ڈیڑھ کروڑ ٹیکسٹ پیغامات بھیجے کہ وہ ان مقامات سے نکل جائیں جہاں حماس چھپی ہوئی ہے۔
اسرائیلی ترجمان نے امدادی ایجنسیوں پر الزام لگایا کہ بجائے اس کے کہ وہ شہریوں کو انسانی بنیاد پر امداد پہنچانے کے لیے ہمارے ساتھ تعاون کرتیں، الٹا انہوں نے لوگوں کو وہاں دھکیل دیا جو حماس کے گڑھ تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امدادی ایجنسیاں مجرمانہ طور پر حماس کی انسانی ڈھال کی حکمت علمی اور اس کے فوجی اثاثے چھپانے کے لیے عام شہریوں کو استعمال کرنے کی کوششوں میں ملوث ہیں۔
یہ وہ دعویٰ ہے جس کی حماس تردید کرتا رہا ہے۔
جب وائس آف امریکہ کی انٹرویور نے کہا کہ اور کچھ تو اسرائیل پر نسل کشی کا الزام بھی لگا رہے ہیں یا کم ازکم ایسا ارادہ رکھنے کا الزام لگا رہے ہیں اور آپ کی حکومت کے کچھ وزراء نے خود غزہ کو مٹانے کی بات کی ہے؟
تو اسرائیلی ترجمان نے انہیں روکتے ہوئے کہاکہ نہیں نہیں. معذرت کے ساتھ میں آپ کو روکوں گا. 7 اکتوبر کو حماس نےنسل کشی کا ارتکاب کیاہے۔ حماس نے ایک واحد مقصد کے ساتھ ڈیتھ اسکواڈ بھیجے جس میں زیادہ سے زیادہ اسرائیلیوں کو جلانے، سر قلم کرنے، تشدد کرنے، مسخ کرنے، قتل عام،ریپ اور اغوا کرنے کی کوشش کی گئی، جتنی وہ کر سکتے تھے، وحشیانہ طریقے سے۔ یہ حماس کا مشن تھا۔ اور تب سے، ہم حماس کو دوبارہ ایسا کرنے سے روکنے اور یرغمالوں کو واپس لانے کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ حماس نے اسرائیل کےان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور اب تک اسرائیل نے کوئی ٹھوس شواہد فراہم نہیں کیے ہیں۔
تازہ ترین پیش رفت میں اس الزام کی چھان بین کے لیے اقوام متحدہ کے مقر کردہ دو ماہرین نے اسرائیل سے مزید قابل تصدیق شواہد فراہم کرنے کے لیے کہا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ 7 اکتوبر کا حملہ اسرائیل کی ناکام سیکیورٹی کی جانب واضح اشارہ ہے اور دیرپا امن کا راستہ دو ریاستی حل ہے، ایلون لیوی کا کہنا تھا کہ آپ ایک ایسے وقت میں طویل مدتی سیاسی افق کے بارے میں بات کر رہی ہیں جب ہم اپنی کوششیں حماس کو تباہ کرنے اور یہ جنگ جیتنے پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے خطے میں فلسطینیوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے حماس کو منظر سے ہٹنا ہو گا۔حماس اسرائیل کے وجود کے خلاف ہے۔آئے دن خودکش دھماکے، راکٹوں اور میزائلوں سے حملے اس کا معمول ہے۔ خطے میں امن کے لیے تشدد کو ختم اور اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا ہو گا۔
وائس آف امریکہ نے اسرائیلی ترجمان سے پوچھا کہ ایک ایسے وقت میں جب غزہ میں انسانی بحران کی کیفیت ہے،عام شہری غیر مسلح ہیں تو آیا وہاں انسانی ہمدردی کی امداد پہنچانے کے لیے کچھ دنوں کی جنگ بندی ہو سکتی ہے؟
ایلون لیوی نے اپنے جواب میں کہا کہ اسرائیل کے پاس غزہ میں امداد کی منتقلی کے لیے زیادہ گنجائش موجود ہے ۔ اس وقت جتنے امدادی ٹر ک غزہ جا رہے ہیں، ان کی تعداد دوگنی ہو سکتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حماس امدادی ٹرکوں کو ہائی جیک کر رہی ہے مگر اقوام متحدہ کے ادارے اس پر خاموش ہیں اور پردہ ڈال رہے ہیں۔
اسرائیل کے اس دعویٰ کو اقوام متحدہ سمیت غزہ میں کام کرنے والی امدادی تنطیموں نے مسترد کیا ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک نے غزہ کی شہری آبادی کے مصائب اور خوراک پانی اور ایندھن کی قلت کی جانب توجہ دلاتے ہوئے امداد کی ترسیل م یں تیزی اور اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم 7 اکتوبر کے وحشیانہ حملوں کی ذمہ دار حکومت کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اپنی جنگ جاری رکھیں گے اور یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک حماس کے عقوبت خانوں میں پھنسے ہوئے تمام مغوی واپس نہیں آ جاتے۔
حماس کے عہدے دار اسرائیل کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔