اقوام متحدہ: اسرائیل پر حماس کے حملے میں مبینہ ریپ اور تشدد کی تحقیقات شروع

جنیوا (ڈیلی اردو/رائٹڑز/وی او اے) اقوام متحدہ کے ماہرین نے پیر کے روز 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے دوران اسرائیلی شہریوں کے خلاف جنسی تشدد کے الزامات کے شواہد طلب کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریپ اور جنسی اعضا کو مسخ کرنے کے ثبوت انسانیت کے خلاف ممکنہ جرائم بن سکتے ہیں۔

اسرائیلی حکام نے اسرائیل پر اپنی تاریخ کے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملے کے دوران ممکنہ جنسی جرائم کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے، جب کہ حماس نےاس طرح کے واقعات کی سختی سے تردید کی ہے۔

اقوام متحدہ کے مقرر کردہ دو غیر جانبدار ماہرین نے پیر کے روز اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ریپ اور جنسی تشدد کے واقعات سے متعلق شواہد میں اضافہ خاص طور پر پریشان کن ہے۔

بیان میں اسرائیل کی جانب سےجنسی تشدد کے الزامات کا حوالہ دیا گیا جن میں ریپ اور اجتماعی جنسی زیادتی کے ساتھ ساتھ جنسی اعضا کو مسخ کرنے اور ان پر گولیاں مارنے کے الزامات بھی شامل ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کے دائرے میں آتی ہیں، جو کہ جنگی جرائم کے مترادف ہیں۔

ماہرین کا مزید کہناتھا کہ ان حملوں میں متاثرین کی تعداد اور اس سلسلے میں وسیع تر قبل ازوقت منصوبہ بندی کے پیش نظر یہ واقعات انسانیت کے خلاف جرائم میں شامل ہو سکتے ہیں۔

ماہرین نے مزید کہا کہ یہ ہر متاثرہ فرد کا استحقاق ہے کہ اس سے ہونے والی زیادتیوں کو تسلیم کیا جائے ، چاہے اس کی نسل، مذہب یا جنس کچھ بھی ہو، اور ہمارا رول یہ ہے کہ ہم ان کی آواز بنیں۔

جنیوا میں اسرائیل کے سفارتی مشن نے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔ سفارتی مشن نے کہا ہے کہ پوری بین الاقوامی برادری کو حماس کی سفاکانہ اور دہشت گرد نوعیت کو مکمل طور پر تسلیم کرنا چاہیے، اور اس کی ذمہ داری فلسطینی اتھارٹی سمیت ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو برسوں سے انہیں تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔

اس سے قبل اسرائیل نے یہ کہتے ہوئے عالمی ادارے پر تنقید کی تھی کہ اس نے مبینہ جرائم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ شواہد کے حصول اور اس مسئلے کے حل کے لیے کافی کام نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ تشدد اور ہلاکتوں کے امور کے دو ماہرین، ایلس جِل ایڈورڈز اور مورس ٹڈ بال بنز نے حماس کے حکام کے ساتھ یہ مسئلہ اٹھایا ہے۔

انہوں نے اسرائیل کی حکومت کو بھی اپنے تفتیش کاروں کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے لکھا ہے۔

اسرائیل نے گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں کے اسرائیل کے جنوبی علاقے میں داخل ہو کر حملہ کرنے کے بعد حماس کا صفایا کرنے کے لیے اپنی فوجی مہم شروع کی تھی۔

اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے اس حملے میں 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے جب کہ جنگجو 240 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ بعد ازاں ان میں سے زیادہ تر خواتین اور بچوں کو ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران رہا کر دیا گیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق اب بھی 130 مغوی حماس کی تحویل میں ہیں۔

غزہ میں حماس کے زیر انتظام محکمۂ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائی میں 22000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں