اسلام آباد (ڈیلی اردو) سپریم کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل قتل کیس کے مرکزی ملزم عمر شیخ کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد کر دی۔
امریکی صحافی ڈینیئل پرل قتل کیس کے مرکزی ملزم عمر شیخ کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
عمر شیخ کے وکیل کی عدم پیشی پر سپریم کورٹ نےضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد کر دی۔
عمر شیخ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
واضح رہے کہ امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا میں نمائندے ڈینیئل پرل 23 جنوری 2002 کو کراچی سے لاپتہ ہوئے تھے۔
27 جنوری کو ایک غیر معروف تنظیم ‘دا نیشنل موومنٹ فار دا ریسٹوریشن آف پاکستانی سوورینٹی’ کی جانب سے دھمکی آمیز پیغام منظر عام پر آیا تھا کہ اگر 24 گھنٹوں کے اندر گوانتانامو بے میں قید پاکستانیوں کو رہا نہ کیا گیا، پاکستان کو ایف 16 طیارے فراہم نہ کیے گئے اور تاوان ادا نہ کیا گیا تو امریکی صحافی کو ہلاک کر دیا جائے گا۔
21 فروری 2002 کو پاکستانی حکام کو ایک ویڈیو موصول ہوئی تھی جس میں ڈینیئل پرل کی ہلاکت دکھائی گئی تھی اور پھر اسی برس مئی میں کراچی میں ہی ایک گڑھے سے ایک سربریدہ لاش برآمد ہوئی جو ڈی این اے رپوٹ کے مطابق ڈینئیل پرل کی تھی۔
اس معاملے میں کراچی کے آرٹلری میدان تھانے میں فہد نعیم، سید سلمان ثاقب، شیخ عادل، احمد عمر شیخ کے خلاف امریکی صحافی کے اِغوا اور قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا اور انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر احمد عمر شیخ کو سزائے موت جبکہ باقی تین مجرمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ نے رواں سال اپریل میں اس مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے مجرمان کو دی گئی سزاؤں کے خلاف اپیل میں احمد عمرشیخ کی سزائے موت ختم کر کے انھیں اغوا کے جرم میں سات برس قید کی سزا دینے جبکہ دیگر تین ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کرنے کا حکم دیا تھا۔
خیال رہے کہ اس سے قبل واشنگٹن ڈی سی کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے تین سالہ پرل پروجیکٹ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان چاروں مجرموں نے صحافی کے اغوا میں ضرور مدد کی تھی تاہم قتل انھوں نے نہیں کیا تھا۔
امریکی صحافیوں کی طرف سے تیار کی گئی اس رپورٹ کے مطابق ڈینیئل پرل کے قتل کی ویڈیو بھی دو مرتبہ بنائی گئی تھی۔ پہلی میں صحافی کی گردن کٹ چکی تھی لیکن کیمرا مین نے انھیں قتل کرنے والے عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ کے مرکزی رہنما خالد شیخ محمد سے کہا تھا کہ وہ دوبارہ اسے ریکارڈ کروائیں اور دوسری مرتبہ خالد نے ڈینئل پرل کا سر تن سے جدا کیا۔
ڈینیئل پرل قتل کیس
یاد رہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد ہلاک کردیا گیا تھا۔
سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزا کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلی تھیں جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا جو کہ وہ پہلے ہی پوری کرچکے تھے۔
احمد عمر سعید شیخ کون ہیں؟
1973 میں لندن میں ایک متمول اور مذہبی رجحان رکھنے والے پاکستانی خاندان میں پیدا ہونے والے عمر سعید شیخ کے بارے میں سابق پاکستانی فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سنہ 2006 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ‘ان دی لائن آف فائر’ میں لکھا کہ ‘عمر شیخ کو لندن اسکول آف اکنامکس میں دوران تعلیم ہی برطانوی انٹیلی جنس ادارے ایم آئی سکس نے بھرتی کر لیا تھا۔ ان کے ذریعے بوسنیا میں سرب جارحیت کے خلاف لندن میں مظاہرے منعقد کروائے گئے حتیٰ کہ برطانوی انٹیلی جنس نے اسے کوسوو میں جہاد کے لیے بھی بھیجا’۔
ان معلومات کی کبھی باضابطہ تردید نہیں کی گئی اور خود عمر شیخ نے بھی یہ اعتراف کیا تھا وہ سنہ 1992 میں زمانہ طالب علمی میں بوسنیا گئے تھے اور وہاں مسلمانوں کے خلاف سربوں کے ظلم اور اس پر عالمی طاقتوں کی ‘بے حسی’ نے ان کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑے۔
بوسنیا سے جہاد میں حصہ لینے کا تصور لیے عمر شیخ افغانستان پہنچے جہاں انھوں نے ‘جنگی تربیت’ حاصل کی لیکن مبصرین کے مطابق اس ‘جنگی’ تربیت کے استعمال کی انھیں شاید کبھی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ انھوں نے اپنی مغربی تعلیم اور تربیت کو استعمال کرتے ہوئے مغرب سے تعلق رکھنے والوں کو اغوا کر کے اپنے مقاصد پورا کرنے کا پروگرام بنایا۔
1994 میں عمر شیخ نے انڈین دارالحکومت نئی دہلی میں تین برطانوی اور ایک امریکی شہری کو اغوا کیا اور ان کے رہائی کے بدلے دس کشمیری رہنماؤں کی جیل سے رہائی کا مطالبہ کیا تاہم یہ منصوبہ ناکام ہوا، وہ پولیس مقابلے میں زخمی ہوئے اور انڈین حکام کی قید میں چلے گئے۔
اس قید سے اسے رہائی دسمبر 1999 میں اس وقت ملی جب ایک انڈین مسافر طیارہ کھٹمنڈو سے دلی جاتے ہوئے اغوا ہو کر قندھار لے جایا گیا۔ طیارے کے مسافروں کے بدلے تین افراد کی رہائی عمل میں آئی جن میں کشمیری جیلوں میں بند مولانا مسعود اظہر، مشتاق زرگر اور عمر شیخ شامل تھے۔
پھر امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے دعویٰ کیا کہ امریکہ پر نائن الیون کے حملوں میں شامل ایک شخص محمد عطا کو پاکستان سے ایک بڑی رقم عمر شیخ نے امریکہ بھیجی تھی۔ ابھی یہ انکشاف اخبارات کی زینت نہیں بنا تھا کہ پاکستان میں امریکی صحافی ڈینئل پرل کا اغوا ہو گیا۔
تفتیش کے دوران اس معاملے میں عمر سعید شیخ کا نام سامنے آیا اور پھر کراچی پولیس نے عمر شیخ کو لاہور میں تلاش کر لیا۔ ایک افسر کی ان سے فون پر بات بھی ہوئی اور انھیں ڈینیئل پرل کو رہا کرنے کے بدلے رعایت دینے کی پیشکی کی گئی لیکن پھر وہ تفتیش کاروں کے ریڈار سے غائب ہو گئے۔
دس روز تک تلاش جاری رہی جس کے بعد عمر شیخ نے خود گرفتاری دے دی لیکن اس وقت تک ڈینیئل پرل کو قتل کیا جا چکا تھا۔
گرفتار ہونے کے بعد عمر شیخ نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد اور گرفتاری سے پہلے کے دو ہفتے انھوں نے لاہور میں اس وقت کے ایک سینیئر بیوروکریٹ اور پاکستان کے سابق وزیرِ داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجازشاہ کے پاس گزارے تھے۔
ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل میں شامل افراد پر مقدمہ امریکہ میں چلانے کا فیصلہ ہوا لیکن پاکستانی حکومت نے عمر شیخ کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
پھر پاکستان میں اس مقدمے میں سنہ 2002 میں عمر شیخ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سزائے موت سنائی جس پر اپیل کا فیصلہ 18 برس بعد دو اپریل 2020 کو ہوا اور سندھ ہائی کورٹ نے ان کی سزائے موت ختم کرتے ہوئے اسے اغوا کے جرم میں 7 برس قید کی سزا سے بدل دیا۔