تل ابیب (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کی سنہ 2022 کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج دنیا کی جدید ترین افواج میں سے ایک ہے اور اس نے ہتھیاروں کی صنعت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
آئی ڈی ایف کے مطابق جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں اور اہداف کے تعین میں مصنوعی ذہانت اہم کردار ادا کر رہی ہے تاہم ہدف کو نشانہ بنانے کا حتمی فیصلہ انسانی ہاتھوں میں ہی رہتا ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں اب تک اسرائیلی حملوں میں مارے جانے والوں کی تعداد 22 ہزار سے زیادہ ہے۔
تاہم اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین پر عمل کرتی ہے اور شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرتی ہے۔
اس تحریر میں ہم نے اسرائیل کے جدید ترین ہتھیاروں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے۔
البرق ٹینک
’البرق‘ ٹینکوں کو مشہور میرکافا ٹینک کا ’پانچواں ورژن‘ کہا جاتا ہے۔ اس ٹینک کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے اندر بیٹھے فوجی اپنے ارد گرد دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور وہ ٹینک میں رہ کر لڑائی جاری رکھ سکتے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے مطابق یہ ٹینک اہداف کی نگرانی کے لیے ’قابل اعتماد سینسر کے وسیع نیٹ ورک‘ سے لیس ہیں۔ اس ٹینک میں 360 ڈگری زاویے کی خصوصیت کی وجہ سے اس پر موجود کمانڈر اپنے دائیں بائیں ہونے والی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس ٹینک کی تیاری میں پانچ برس کا عرصہ لگا۔ اسرائیلی فوج کو گذشتہ برس ستمبر میں یہ ٹینک دیے گئے ہیں۔
البرق ٹینک ’ٹرافی ایکٹیو حفاظتی نظام‘ کا فعال انداز میں استعمال کرتے ہوئے ٹینک کے گرد 360 ڈگری پر حفاظتی شیلڈ بنا دیتا ہے۔ یہ سسٹم کسی بھی آنے والے خطرے کا پتا لگاتا ہے اور اپنے میزائل فائر کر کے اپنی جانب آنے والے دشمن کے میزائل کو تباہ کر سکتا ہے۔
سپارک ڈرون
سپارک ڈرون کو رافیل ایڈوانسڈ ڈیفینس سسٹمز نے ایروناٹکس گروپ کے تعاون سے تیار کیا ہے، جسے اسرائیلی فضائیہ کی طرف سے جنگی اور انٹیلیجنس معلومات جمع کرنے والے ڈرونز کے بیڑے میں شامل کیا جائے گا۔
اسرائیلی فوج نے سپارک ڈرون کے بارے میں زیادہ معلومات شئیر نہیں کی ہیں۔
اس کا کہنا ہے کہ یہ ’فوجیوں کی قابلیت کو نمایاں طور پر بہتر بنائے گا اور وہ جارحانہ اور مؤثر طریقے سے کام کریں گے‘ تاہم اسرائیلی فوج نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ کیسے ہو گا۔
سپائِک فائر فلائی
سپائک فائر فلائی ایک قسم کا ’خودکش‘ ڈرون ہے۔ اس کا وزن تین کلو گرام ہے اور اس میں موجود بارودی مواد کو اس سے الگ کیا جا سکتا ہے۔
اسے تیار کرنے والی اسرائیلی کمپنی رافیل کے مطابق اسے نظروں سے اوجھل رکھا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ڈرون دشمن کے ٹھکانوں کے اوپر پرواز کر سکتا ہے لیکن زمین پر موجود فوجی اسے نہیں دیکھ سکتے۔
ایک چھوٹے پورٹیبل باکس سے باہر نکالنے کے بعد اس ڈرون کو مطلوبہ جگہ پر پرواز کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ یہ 30 منٹ تک ہوا میں رہ سکتا ہے اور فوجی دستوں کو 1.5 کلومیٹر کے فاصلے تک صورتحال کا منظر پیش کرتا ہے۔
فوجی اسے ٹیبلٹ کے ذریعے کنٹرول کر سکتے ہیں، یہ معلومات جمع کرتا ہے اور ہدف کا تعین کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ بیس پر واپس آ سکتا ہے اور 350 گرام گولہ باردو سے لیس ہونے کے باعث ہدف پر حملہ بھی کر سکتا ہے۔
آئرن سٹنگ
یہ ایک مارٹر شیل ہے، جسے لیزر اور جی پی ایس سے ہدایات ملتی ہیں۔ اسے اسرائیلی کمپنی ’ایلبٹ ‘نے تیار کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اسے پہلی بار اکتوبر 2023 میں غزہ میں استعمال کیا گیا۔
ایلبٹ کے مطابق آئرن سٹنگ 120 ملی میٹر تک درستگی سے چلنے والا مارٹر گولہ ہے، جو ’مختلف جنگی حالات میں اعلیٰ صلاحیتیں‘ فراہم کرتا ہے۔ اس کی رینج ایک سے 12 کلومیٹر ہے جس کا انحصار مارٹر ٹیوب پر ہوتا ہے۔
ایلبٹ کے مطابق یہ دھماکہ خیز اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے اثر کے ساتھ دوہرے پرتوں والے کنکریٹ میں گھس سکتا ہے۔
اسرائیلی جنگوں میں مصنوعی ذہانت کا کیا کردار ہے؟
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال ہتھیاروں کو اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں زیادہ درست بناتا ہے اور اس سے غیر ضروری تباہی اور عام شہریوں کی ہلاکتوں میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم اقوام متحدہ، انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس اور دیگر تنظیموں نے اسرائیل کی طرف سے جنگ میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بی بی سی کے سوال کرنے پر انٹرنیشنل سوسائٹی آف ریڈ کراس نے اسرائیل کے جنگ میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا لیکن اس نے سنہ 2023 کے اوائل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ’جنگ میں قانونی ذمہ داریاں اور اخلاقی ذمہ داری مشینوں اور سافٹ ویئر کے سپرد نہیں کی جانی چاہیے۔‘
جنگ میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کے بارے میں بنیادی خدشات خود مختار ہتھیاروں کے نظام سے متعلق ہیں۔ ایسے نظام جو آپریٹنگ میکنزم کی بنیاد پر خود بخود کام کرتے ہیں۔
مسلح تصادم میں مصنوعی ذہانت کا استعمال صرف ہتھیاروں اور ان کے آپریٹنگ میکنزم تک ہی محدود نہیں بلکہ اہداف کو جمع کرنے اور ان کی شناخت کے لیے بھی ابتدائی مراحل میں استعمال کیا جاتا ہے۔
لیکن ایسا پہلی بار نہیں کہ اسرائیل انٹیلیجنس معلومات اور ہدف کے تعین کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہا ہے، سنہ 2021 میں بھی غزہ میں 11 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا تھا۔
جون 2023 میں اسرائیل کی ایک نیوز ویب سائٹ ’ینت نیوز‘ کو انٹرویو میں اسرائیلی ڈیفینس فورسز کے سابق چیف آف سٹاف ایوو کووچاوی نے اپنے ٹارگٹنگ ڈائریکٹوریٹ یونٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ’سینکڑوں افسران اور فوجیوں پر مشتمل اور مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں کا حامل ہے۔‘
انھوں نے کہا تھا کہ ’یہ ایک ایسی مشین ہے جو انسانوں کے مقابلے میں بہت تیزی سے ڈیٹا کو پراسس کرتی ہے۔‘
سنہ 2021 کے ایک آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’ماضی میں ایک دن کے دوران ہم غزہ میں 50 اہداف بنا سکتے تھے لیکن اب یہ مشین صرف ایک دن میں 100 ٹارگٹ بناتی ہے۔‘
’گوسپل‘ اسرائیل کی ’ٹارگٹ فیکٹری‘
گوسپل اسرائیلی دفاع افواج کے ’ٹارگٹ مینجمنٹ یونٹ‘ کے ذریعے چلایا جانے والا ایک پلیٹ فارم ہے جو مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے اہداف تیار کرتا ہے۔
اسرائیلی دفاعی افواج نے نومبر 2023 میں اسے اپنی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ میں ’24 گھنٹے کام کرنے والی ٹارگٹ فیکٹری‘ کے طور پر متعارف کروایا۔
اسرائیلی فوج کے مطابق ’گوسپل‘ ایک ایسا نظام ہے جو خودکار آلات کے استعمال کی اجازت دیتا ہے تاکہ تیزی سے اہداف کا تعین کیا جا سکے۔
یہ نظام غزہ کی پٹی میں کام کرنے والے اسرائیلی انٹیلیجنس کے مختلف ہتھیاروں کے ذریعے جمع کیے گئے ڈیٹا کی مدد سے حملے کے لیے اہداف تیار کرتا ہے تاہم آئی ڈی ایف کے مطابق نشانہ بنانے کا فیصلہ افسران کے ہاتھ میں ہی رہتا ہے۔
آئی ڈی ایف کے مطابق اسرائیل غزہ جنگ کے 27ویں دن غزہ کی پٹی میں 12 ہزار سے زیادہ اہداف تھے۔
یروشلم میں اسرائیل کے ایک تحقیقاتی صحافی یوول ابراہم غزہ جنگ کے دوران مصنوعی ذہانت پر تحقیق کر رہے ہیں۔
یوول ابراہم نے اپنی ایک رپورٹ ’اجتماعی قتل کی فیکٹری‘ +972 میگزین کے لیے لکھی۔ یہ ایک ایسا غیر منافع بخش آن لائن میگزین ہے جسے فلسطینی اور اسرائیلی صحافی مل کر چلاتے ہیں۔
یہ رپورٹ اسرائیلی انٹیلیجنس کے سات موجودہ اور سابق ارکان کے ساتھ بات چیت پر مبنی ہے، جن میں ملٹری انٹیلیجنس اور فضائیہ کے وہ اہلکار بھی شامل ہیں جو اسرائیلی کارروائیوں میں شامل رہے۔
یوول ابراہم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب غزہ میں عام شہری مرتے ہیں تو اکثر اوقات اس کا حساب کتاب کیا جاتا ہے اور جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔‘ انھوں نے اپنے نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حماس کے کسی بھی رکن کو نشانہ بناتے ہوئے فلسطینی شہریوں کو نقصان پہنچنے کے معیارات میں نمایاں طور پر نرمی برتی جاتی ہے۔
جب بی بی سی نے اس بارے میں آئی ڈی ایف سے پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’حماس کے وحشیانہ حملوں کے جواب میں آئی ڈی ایف حماس کی فوجی اور انتظامی صلاحیتوں کو ختم کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اسرائیلی مردوں، عورتوں اور بچوں پر حماس کے حملوں کے بالکل برعکس آئی ڈی ایف بین الاقوامی قوانین کی پیروی کرتا ہے اور شہری نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتا ہے۔‘
آئی ڈی ایف کا اعتراف
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 24 دسمبر 2023 کو غزہ کے مرکز میں پناہ گزینوں کے لیے قائم المغازی کیمپ پر اسرائیل کے فضائی حملے میں کم از کم 86 افراد ہلاک ہوئے۔
آئی ڈی ایف، جس نے بعد میں اس حملے میں غلط ہتھیاروں کے استعمال کا اعتراف کیا، نے بی بی سی کو بتایا کہ اسے اس حملے میں ہونے والے نقصان پر افسوس ہے۔
اسرائیل کے ایک نشریاتی ادارے ’کان نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ایک اہلکار نے کہا تھا کہ ’اس حملے میں استعمال ہونے والے اسلحے کی قسم حملے کی نوعیت سے نہیں ملتی تھی، جس سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا اور اس سے بچا جا سکتا تھا۔‘
اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کے طیاروں نے اس علاقے سے ملحقہ دو اہداف کو نشانہ بنایا جہاں حماس کے کارکن موجود تھے لیکن حملوں کے دوران اضافی عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔