کوئٹو (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) ایکواڈور کے نئے صدر کی جانب سے ملک میں ہنگامی حالات کے نفاذ کے بعد حملے، دھماکے اور پولیس افسران کے اغوا کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔ پولیس نے تاہم صورت حال پر قابو پالینے کا دعویٰ کیا ہے۔
نقاب پوش بندوق برداروں نے منگل کو ایکواڈور میں ایک سرکاری ٹیلی ویژن چینل کی لائیو نشریات کے دوران اسٹوڈیو میں دھاوا بول دیا۔
حملہ آور بندرگاہی شہر گویاکویل میں ٹی سی ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے اسٹوڈیو میں گھس گئے اور چلاتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس”بم” ہیں۔ بعد میں گولیوں کی آوازیں بھی سنائی دیں۔
یہ واقعہ ملک کے نئے صدرڈینیئل نوبووا کی جانب سے 60 دنوں کے لیے ملک گیر ہنگامی حالات کے اعلان کے بعد پیش آیا۔ انہوں نے منشیات کا غیر قانونی کاروبار کرنے والے ایک گروہ کے چوٹی کے رہنما کے جیل سے فرار ہونے کے بعد یہ اعلان کیا تھا۔
نوبووا کی جانب سے پیر کے روز ہنگامی حالات کے اعلان کے چند گھنٹوں کے اندر اندر ملک گیر حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جب کہ ایک گینگسٹر نے کئی پولیس اہلکاروں کو یرغمال بھی بنالیا۔ان حملوں میں اب تک کم از کم دس افراد ہلاک ہوچکے ہیں،جن میں کئی سرکاری افسران شامل ہیں۔
حملہ آوروں نے سرکاری افسران کو اغوا کرنے کے بعد ایک ویڈیو جاری کیا ہے جس میں ایک شخص کو ملکی صدر کے نام ایک پیغام پڑھ کر سنانے پر مجبور کیا گیا۔
ویڈیو میں خوفز دہ افسر کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے،”آپ نے جنگ کا اعلان کیا، اب آپ کو جنگ سے ہی جواب ملے گا۔ آپ نے ہنگامی حالت کا اعلان کیا۔ ہم پولیس، شہریوں او رفوجیوں کواس کا آلہ کار قرار دیتے ہیں۔”
صدر ڈینیئل نوبووا نے حالیہ انتخابات کے دوران ملک میں تشدد اور جرائم کی بڑھتی ہوئی سطح کو کم کرنے کا وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران ان کے ایک ساتھی امیدوار اور بدعنوانی کے خلا ف آواز بلند کرنے والے رہنما فرنینڈو ولاویسینسیو کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
ملزمان پر دہشت گردی کا الزام
پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے حالات پر قابو پالیا اور اسٹوڈیو کو اپنی حفاظت میں لے لیا۔
ایکواڈور کی قومی پولیس کے سربراہ سیزر زپاٹا نے بتایا کہ حملہ آوروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے قبضے سے بندوقیں اور دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا ہے اور ان پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا گیا جائے گا۔
ٹی وی اسٹوڈیو میں کیا ہوا؟
مسلح افراد نے اس وقت اسٹوڈیو میں دھاوا بول دیا جب نشریات جاری تھی۔ انہوں نے گولیاں چلائیں اور لوگوں کو فرش پر لیٹنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے متعدد افراد کو یرغمال بھی بنالیا۔
ویڈیو میں ایک خاتون کو گڑ گڑاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے،”ہمیں گولی نہ مارو، براہ کرم گولی نہ چلاو۔”
ایک صحافی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے واٹس ایپ پیغام پر لکھا، “وہ ہمیں مارنے آئے تھے۔ خدا کرے ایسا نہ ہو۔ مجرم اس وقت آن ایئر ہیں۔”
کوئٹو میں صحافی اڈریانا نوبووا آریگوئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایاکہ انہیں اطلا ع ملی تھی کہ مغویوں کو رہا کردیا گیا ہے اور زخمیوں کو ہسپتال لے جایا گیا ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “گزشتہ دو یا تین سالوں سے ہم حقیقی تحفظ سے محروم ہیں۔ تشدد بد سے بدترین صورت اختیار کرتی جارہی ہے اور کل رات سے ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ صدر نے جرائم پیشہ افراد کے خلاٹ جنگ کا اعلان کیا ہے اور وہ جیل کے نظام پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن یہ مشکل ہو گا کیونکہ اب ان پر جرائم پیشہ افراد کا کنٹرول ہے۔”