ہیگ (ڈیلی اردو/بی بی سی ) عالمی عدالت انصاف جنوبی افریقہ کی دائر درخواست پر اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی نسل کشی کے مقدمے پر آج سے سماعت شروع کرے گی، پاکستان نے جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر درخواست کی حمایت اور اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔
یہ عالمی عدالت انصاف کے سامنے اس صدی کا ایک بڑا مقدمہ ہے۔ 11 اور 12 جنوری کو جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرنے والے وکلا، اسرائیل کی نمائندگی کرنے والے وکلا پوری دنیا کے سامنے کمرہ عدالت میں پیش ہوں گے۔
کیا اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے؟ جنوبی افریقہ کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دراصل نسل کشی ہے، اس لیے اس نے 29 دسمبر 2023 کو دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کیا۔
لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کا کہنا ہے کہ ان کا ملک غزہ کے اندر اپنی فوجی مہم میں ’بے مثال اخلاقیات‘ کے ساتھ کام کر رہا ہے، جب کہ اسرائیلی حکومت کے ترجمان نے جنوبی افریقہ کے مقدمے کا موازنہ ’خون کی توہین‘ سے کیا ہے۔
جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف سے کہا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ کیا اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے یا نہیں۔
پاکستان نے بھی اس درخواست کی حمایت کی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ ممتاز بلوچ نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ پاکستان جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالت انصاف کے سامنے درخواست کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کو بھی یہی تحفظات ہیں جو درخواست میں بیان کیے گئے ہیں۔
ترجمان کے مطابق اس وقت فلسطینیوں کے خلاف جاری جارحیت اور کارروائیاں جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے اور یہ نسل کشی کے مترادف ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان فوری طور غیر مشروط جنگ بندی اور فلسطینی عوام کے قتل عام کو روکنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ انھوں نے فوری طور پر فلسطینی لوگوں کے لیے انسانی امداد کی بحالی کو بھی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان فلسطینیوں کے لیے سنہ 1967 سے پہلے والی سرحدوں پر آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے، جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہوں۔
نسل کشی کیا ہے اور اسرائیل کے خلاف کیا مقدمہ ہے؟
جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں 84 صفحات پر مشتمل ایک قانونی درخواست جمع کروائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات ’نسل کشی کے مترادف‘ ہیں کیونکہ ان کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کے ایک اہم حصے کو تباہ کرنا ہے۔‘
جنوبی افریقہ نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملے کے بعد سے اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے سینکڑوں جنگجو غزہ سے جنوبی اسرائیل میں داخل ہوئے تھے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اور اس حملے میں 1300 افراد ہلاک جبکہ 240 کو یرغمال بنا کر واپس غزہ لے جایا گیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیلی ردعمل کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک غزہ میں 23000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں ان میں بیشتر خواتین اور بچے ہیں۔
اور جنوبی افریقہ کی طرف سے جمع کیے گئے شواہد دعویٰ کرتے ہیں کہ اسرائیل کی کارروائیاں اور جو اقدام وہ کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں ’نسل کشی کرنے کی خصوصیت کی حامل ہیں کیونکہ ان کا مقصد فلسطینی قوم اور نسل کے ایک حصے کو تباہ کرنا ہے۔‘
اس سے مراد اسرائیل کی فضائی بمباری جیسی کارروائیوں کے علاوہ وہ اقدام بھی ہیں جو وہ کرنے میں ناکام رہے ہیں جیسے کہ عام شہریوں کو نقصان سے بچانا۔
اس مقدمے میں اسرائیلی بیانیہ بھی شامل ہے جس میں وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے تبصرے بھی شامل ہیں اور ان کو ’نسل کشی کی نیت‘ کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر درخواست میں پیش کیے گئے دلائل کے مطابق، زیر بحث قتل و غارت گری کی کارروائیوں میں فلسطینیوں کو قتل کرنا، شدید جسمانی اور نفسیاتی نقصان پہنچانا، اور جان بوجھ کرایسے حالات پیدا کرنا شامل ہیں جن کا مقصد ’ایک گروہ کے طور پر ان کی جسمانی تباہی کو حاصل کرنا‘ ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام کے عوامی بیانات ہیں جن میں تباہی کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔
نسل کشی کی تعریف کیا ہے؟
اقوام متحدہ کے 1948 میں جاری کردہ نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن کے مطابق، نسل کشی کا مطلب ہے کسی قومی، نسلی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کارروائیوں کا کمیشن۔ ان کاموں میں شامل ہیں:
* گروپ کے ارکان کو قتل کرنا۔
* گروپ کے اراکین کو شدید جسمانی یا نفسیاتی نقصان پہنچانا۔
* جان بوجھ کر گروپ کو زندگی کے حالات کے تابع کرنا جس کا مقصد اسے جسمانی طور پر، مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنا ہے۔
* گروپ کے اندر بچوں کی پیدائش کو روکنے کے لیے اقدامات نافذ کرنا۔
* بچوں کو گروپ سے دوسرے گروپ میں زبردستی منتقل کرنا۔
نسل کشی کو ثابت کرنا سب سے مشکل بین الاقوامی جرائم میں سے ایک ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت میں لبنان کی سابق وکیل دیالہ شہادیہ کہتی ہیں ’نسل کشی کو ثابت کرنے سے زیادہ اہم چیز تباہ کرنے کے ارادے کو ثابت کرنا ہے، اور یہی وہ چیز ہے جو جنوبی افریقہ کی درخواست میں شامل ہے، کیونکہ اس میں اسرائیلی حکام کی جانب سے غزہ کا صفایا کرنے اور فلسطینیوں کو قتل کرنے کا مطالبہ کرنے والی عوامی تقاریر کو دستاویز کیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’بین الاقوامی کنونشن کے مطابق، نسل کشی کا مطلب صرف قتل کی کارروائیاں نہیں ہیں، بلکہ ایک گروہ کو ظلم و ستم اور بھوک سے مارنا بھی ہے اورانھیں بنیادی خدمات سے محروم کرنا بھی ہے۔‘
اسرائیل نسل کشی کے الزامات پر کیا ردعمل دے رہا ہے؟
اسرائیل نے جنوبی افریقہ کے دعوؤں کی سختی سے تردید کی ہے۔ اسرائیلی حکومت کے ترجمان ایلون لیوی نے بیان دیا ہے کہ اسرائیل اس معاملے میں اپنا دفاع کرے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ حماس نے جو جنگ شروع کی ہے اس کی اخلاقی ذمہ داری اس پرعائد ہوتی ہے۔
اب تک، اسرائیلی دفاعی ٹیم ایک برطانوی وکیل اور ماہر تعلیم میلکم شا کو جانتی ہے، جو پہلے اسرائیل کے قانونی مشیر کے طور پر کام کر چکے ہیں اور عدالتی معاملات میں متعدد ممالک کی نمائندگی کر چکے ہیں۔
جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم نے اس کے ردعمل میں جنوبی افریقہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے ’جنوبی افریقہ، ہم نے نسل کشی نہیں کی بلکہ حماس ایسا کر رہی ہے۔ وہ ہم سب کا قتل کر دیں اگر وہ کر سکیں۔ اس کے برعکس، آئی ڈی ایف (اسرائیلی فوج) جتنا ممکن ہو سکتا ہے اخلاقی طور پر کام کر رہی ہے۔‘
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے انھوں نے عام شہریوں کی زندگی کو بچانے کے لیے درج ذیل متعدد اقدامات کیے ہیں۔
* کسی بھی علاقے میں ہونے والے حملوں کی پیشگی اطلاع فلسطین کے شہریوں کو فضا سے پرچے پھینک کر دی گئی۔
* عام شہریوں کو فون کے ذریعے ہدف بنائے جانے والی عمارت سے نکلنے کو کہا گیا
* کچھ حملوں کو عام شہریوں کی زندگیاں بچانے کے لیے روکا گیا
اور اسرائیلی حکومت نے متعدد بار حماس کو تباہ کرنے کی نیت کا اظہار کیا ہے نہ کہ فلسطینی لوگوں کو تباہ کرنے کا۔
برطانیہ کے سیکٹری خارجہ لارڈ کیمرون نے ممبر پارلیمان کی کمیٹی کو بتایا کہ وہ ’پریشان ہیں‘، اسرائیل نے غزہ میں شاید عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
لیکن جنوبی افریقہ کے دعوے کے بارے میں ان کا کہنا تھا ’مجھے نہیں لگتا یہ مددگار ہے۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، مجھے نہیں لگتا یہ صحیح ہے۔‘
عالمی عدالت انصاف کیا ہے؟
عالمی عدالت انصاف اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت ہے اور اس کا مشن ملکوں کے درمیان تنازعات کا فیصلہ کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک خود بخود عالمی عدالت انصاف کے رکن ہیں۔
کوئی بھی ملک عالمی عدالت انصاف کے سامنے مقدمہ لے جا سکتا ہے جو کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے ذریعے نو سال کی مدت کے لیے منتخب کیے گئے 15 ججوں پر مشتمل ہے۔
عدالت کے دائرہ اختیار میں 1948 کے نسل کشی کنونشن سے متعلق تنازعات پر غور کرنا ہے۔
1939 اور 1945 کے درمیان دوسری جنگ عظیم کے دوران یورپ میں نازیوں کے ہاتھوں 60 لاکھ یہودیوں کے مارے جانے کے بعد، عالمی رہنماؤں نے اس معاہدے کو اپناتے ہوئے دوبارہ سے ایسے سانحے سے بچنے کی کوشش کی تھی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسرائیل، جنوبی افریقہ، میانمار، روس اور امریکہ ان 153 ممالک میں شامل ہیں جنھوں نے اس کی توثیق کی ہے۔
چونکہ اسرائیل اور جنوبی افریقہ میں فی الحال عدالت میں کوئی جج نہیں ہے، اس لیے وہ اس مقدمے کے لیے خصوصی یا عارضی جج مقرر کر سکتے ہیں۔ اسرائیل نے اسرائیل میں سپریم کورٹ کے سابق صدر ہارون بارک کو مقرر کرنے کا انتخاب کیا اور جنوبی افریقہ نے ملک کی سپریم کورٹ کے سابق نائب صدر ڈک گانگ موسینیک کا انتخاب کیا۔
عالمی عدالت انصاف نیدرلینڈ کے شہر ہیگ میں واقع ہے اور اس کا قیام دوسری عالمی جنگ کے بعد ہوا۔ اس کا مقصد ریاستوں کے درمیان نتازعات کا حل نکالنا اور قانونی معاملات میں قانونی مشورہ دینا ہے۔
عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے برعکس، آئی سی جے افراد کے خلاف انتہائی سنگین جرائم، جیسے کہ نسل کشی کے لیے مقدمہ نہیں چلا سکتا لیکن اس کی رائے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔
کیا یہ عدالت اسرائیل کو غزہ کی جنگ سے روک سکتی ہے؟
جنوبی افریقہ چاہتا ہے کہ عالمی عدالت انصاف اسرائیل کو غزہ کے اندر اور اس کے خلاف تمام عسکری کارروائیوں کو فوری طور پر روکنے کا حکم دے۔ لیکن یہ عملی طور پر یقینی ہے کہ اسرائیل اس طرح کے حکم کو نظر انداز کرے گا اور اس کی تعمیل بھی نہیں کروائی جا سکے گی۔
کہنے کو تو عالمی عدالت انصاف کے فریقین عدالت کے فیصلوں پر قانونی طور پر پابند ہیں لیکن عملی طور پر انھیں لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ اور جنوبی افریقہ آئی سی جے کے رکن ہیں۔
2022 میں عدالت نے روس کو حکم دیا تھا کہ وہ یوکرین میں ’ فوری طور پر فوجی آپریشن کو معطل کرے‘ لیکن اس حکم کو نظر انداز کیا گیا۔
فیصلہ کب تک آئے گا؟
عالمی عدالت انصاف جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کی فوجی مہم کو معطل کرنے کی درخواست پر جلد فیصلہ دے سکتی ہے۔ کہنے کی حد تک یہ فلسطینیوں کو اس سے بچائے گا جسے بالآخر نسل کشی قرار دیا جا سکتا ہے۔
لیکن اس بارے میں حتمی فیصلہ کہ آیا اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے، اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
جنوبی افریقہ نے یہ مقدمہ کیوں کیا؟
جنوبی افریقہ نے غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی پر سخت تنقید کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے 1948 کے نسل کشی کنونشن کے دستخط کنندہ کے طور پر اسرائیل پر اس پر عمل کرنا فرض ہے۔
جنوبی افریقہ میں حکومت کرنے والی افریقن نیشنل کانگریس کی بھی فلسطینی تحریک کے ساتھ یکجہتی کی ایک طویل تاریخ ہے۔
جنوبی افریقہ فلسطینی تحریک میں نسل پرستی کے خلاف اپنی جدوجہد کے ساتھ مماثلت دیکھتا ہے۔ جنوبی افریقہ میں سفید فام اقلیتی حکومت نے ملک کی سیاہ فام اکثریت کے خلاف نسلی علیحدگی اور امتیازی سلوک کی پالیسی رائج کی ہوئی تھی جو 1994 میں ہونے والے پہلے جمہوری انتخابات تک نافذ رہی۔
جنوبی افریقہ نے سات اکتوبر کے حملوں کی مزمت کی اور یرغمالیوں کو چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔
لیکن گذشتہ مہینے صدر سیرل رامافوسا نے جنوبی افریقہ کے یہودی رہنماؤں کو بتایا کہ ان کی حکومت ’فلسطینی لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے جنھوں نے سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے نسل پرستی کے وحشیانہ قبضے کو برداشت کیا ہے۔‘