سعودی عرب کو جرمن ہتھیاروں کی برآمد بحال ہو گئی، برلن حکومت

برلن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے اپی/ڈی پی اے) جرمنی نے تقریباﹰ پانچ سالہ تعطل کے بعد سعودی عرب کو ہتھیاروں کی براہ راست برآمدات بحال کر دی ہیں۔ ابتدائی طور پر جن ہتھیاروں کی فراہمی کی منظوری دی گئی ہے، وہ فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل ہیں۔

جرمن دارالحکومت برلن میں بدھ دس جنوری کے روز وفاقی حکومت کے ترجمان شٹیفن ہیبے شٹرائٹ نے بتایا کہ چانسلر اولاف شولس کی قیادت میں موجودہ مخلوط حکومت نے سعودی عرب کو جرمن ساختہ ہتھیاروں کی برآمدات پر عائد جس پابندی کو اب عملاﹰ ختم کر دیا ہے، وہ 2018ء سے عائد تھی۔

ساتھ ہی حکومتی ترجمان نے یہ بھی کہا کہ ریاض حکومت کو جرمن اسلحے کی براہ راست برآمدات بحال کرنے کے فیصلے کے ساتھ ہی جن اولین ہتھیاروں کی ترسیل کی منظوری دے دی گئی ہے، وہ فضا سے فضا میں مار کرنے والے آئرس ٹی طرز کے میزائل ہیں۔

فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل

جرمن نیوز میگزین ‘ڈئر اشپیگل‘ میں حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے ہیبے شٹرائٹ نے بتایا کہ جرمنی سعودی عرب کو آئرس ٹی طرز کے 150 میزائل برآمد کرے گا۔

وفاقی حکومت کے ترجمان نے برلن میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ آئرس ٹی طرز کے میزائل کسی بھی جنگی ہوائی جہاز سے فائر کیے جا سکتے ہیں اور ان کے ذریعے فضا میں ہی میزائلوں، ڈرونز اور ایسے ہی کسی بھی دوسرے ہدف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

جرمنی میں آئرس ٹی طرز کے میزائل ڈِیہل ڈیفنس نامی ایک دفاعی پیداواری گروپ تیار کرتا ہے اور شولس حکومت کے ترجمان کے مطابق ان میزائلوں کی سعودی عرب کو فراہمی کی برلن حکومت کی طرف سے اصولی منظوری چند روز قبل ختم ہونے والے سال 2023ء کے اواخر میں دے دی گئی تھی۔

سعودی عرب کو اسلحے کی جرمن برآمدات بند کیوں ہوئی تھیں؟

جرمن حکومت نے خلیج فارس کی علاقائی طاقت قرار دی جانے والی قدامت پسند بادشاہت سعودی عرب کو ہتھیاروں کی برآمدات 2018ء میں معطل کر دی تھیں۔ اس کی وجہ ترکی کے شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں سعودی عرب ہی کے ایک منحرف صحافی جمال خاشقجی کا لرزہ خیز قتل بنا تھا۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق برلن حکومت نے سعودی عرب کو اسلحے کی برآمدات کے حوالے سے اپنا جو قدرے لچک دار رویہ اپنایا ہے، اس کی ایک وجہ حماس اور اسرائیل کی جنگ میں ریاض حکومت کی ‘تعمیری سوچ‘ بھی بنی، جس کی برلن نے تعریف بھی کی ہے۔

سعودی اسرائیلی تعلقات کے قیام کے ارادے

خلیج کی چند عرب ریاستیں اسرائیل کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ معمول کے روابط قائم کر چکی ہیں۔ سعودی عرب بھی اسی راستے پر گامزن ہے۔ حماس اور اسرائیل کی جنگ کے باعث یہ امکان پیدا ہو گیا تھا کہ اس وجہ سے سعودی اسرائیلی تعلقات کا ممکنہ قیام کھٹائی میں پڑ جائے گا۔

ایسا ہوا بھی لیکن سعودی حکمرانوں نے اسرائیل کے ساتھ مستقبل میں تعلقات کے قیام کے ارادے کو ابھی تک ترک نہیں کیا۔

اس بارے میں جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے بھی گزشتہ اتوار کے روز کہہ دیا تھا کہ سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کے قیام کے اپنے ارادے ابھی تک ترک نہیں کیے۔

اسی ہفتے پیر کے دن برلن حکومت کی طرف سے یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ وہ یہ اجازت دینے کے لیے بھی تیار ہے کہ سعودی عرب کو یوروفائٹر کہلانے والے جنگی طیارے برآمد کیے جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں