تہران (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/وی او اے) ایران کی بحریہ نے جمعرات کو خلیج عمان میں ایک آئل ٹینکر قبصے میں لے لیا ہے۔ یہ وہی ٹینکر ہے جسے ایک سال قبل امریکہ نے اس وقت پکڑا تھا جب اس کے ذریعے تقریباً 10 لاکھ بیرل ایرانی تیل اسمگل کیا جا رہا تھا۔ اس وقت امریکہ نے ایرانی تیل ضبط کر لیا تھا۔
ایک زمانے میں یہ بحری جہاز سویز راجن کے نام سے جانا جاتا تھا اور وہ ایک سال تک جاری رہنے والے اس تنازعہ میں ملوث تھا جس کے نتیجے میں امریکی محکمہ انصاف نے جرمانے لگا کر اس پر موجود 10 لاکھ بیرل خام تیل ضبط کر لیا تھا۔
ایرانی بحریہ نے آئل ٹینکر پر قبضہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب یمن کے حوثی باغی جنہیں ایرانی سرپرستی حاصل ہے، بحیرہ احمر میں سفر کرنے والے تجارتی جہازوں پر ڈرونز اور میزائلوں سے حملے کر رہے ہیں جس سے عالمی بحری تجارت کے لیے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔
حوثی باغیوں کو اپنی کارروائیوں سے باز رکھنے کے لیے امریکی قیادت کی فورسز نے علاقے کی اہم آبی گزرگاہ پر گشت شروع کر دیی ہے۔ بدھ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حوثیوں کے خلاف قراردار منظور کی اور امریکہ اور برطانوی حکام نےحوثیوں کو خبردار کیا کہ انہیں حملوں کے نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔
جواب میں حوثی باغیوں نے کہا ہے کہ اگر امریکہ نے ان کو ہدف بنایا تو وہ زیادہ سخت کارروائیاں کریں گے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے اپنی تازہ رپوڑت میں کہا ہے کہ اس کے کچھ ہی دیر بعد امریکہ اور برطانوی فورسز نے ایک کارروائی میں یمن میں ٹاماہاک میزائیلوں سے حوثی نیصیبات کو نشانہ بنایا۔
ایران کے سرکاری ٹیلی وژن نے خلیج عدن میں جہاز پکڑنے کی تصدیق کی ہے۔
سرکاری ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ آئل ٹینکر سوئز راجن نے قواعد کی خلاف ورزی کی اور ایرانی تیل چرا کر امریکیوں تک پہنچایا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جہاز پکڑنے کی کارروائی پاسداران انقلاب نے نہیں بلکہ ایرانی نیوی نے کی۔
خطے کے سمندری علاقے میں اس طرح کی کارروائیوں میں زیادہ تر ایرانی ملیشیا پاسداران انقلاب ملوث رہی ہے۔
برطانوی فوج کے کنگ ڈم میری ٹائم ٹریڈ آپریشنز نے، جو مشرقی وسطٰی میں جہاز رانی سے متعلق انتباہات جاری کرتا ہے، بتایا کہ یہ واقعہ جمعرات کی صبح عمان اور ایران کے درمیان پانیوں میں پیش آیا۔ یہ سمندری علاقہ آبنائے ہرمز کے راستے سے جانے والے بحری جہازوں کی گزرگاہ ہے۔ تیل کی عالمی تجارت کے پانچویں حصے کی ترسیل اسی راستے سے ہوتی ہے۔
کنگڈم میری ٹائم ٹریڈ آپریشنز نے بتایا کہ فون پر نامعلوم آوازیں سنائی دینے کے بعد جہاز کے سیکیورٹی افسر سے رابطہ کیا گیا۔ اس کے مطابق جہاز پر فوجی طرز کی سیاہ یونیفام میں ملبوس افراد نے قبضہ کیا جن کے چہرے نقاب میں چھپے ہوئے تھے۔اس کے بعد جہاز سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
ایک پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی ایمبرے نے بتایا ہے کہ چار سے پانچ تک مسلح افراد جہاز پر سوار ہوئے اور انہوں نے جہاز کے نگرانی کرنے والے کیمروں کو ڈھانپ دیا۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے سیٹلائٹ ٹریکنگ ڈیٹا کے تجزیے کے حوالے سے کہا ہے کہ آئل ٹینکر عراقی شہر بصرہ کے قریب تھا اور اس پر ترکیہ کے لیے خام تیل لوڈ کیا جا رہا تھا۔ بعد ازاں آئل ٹینکر کو، جس پر مارشل آئی لینڈ کا پرچم تھا، ایرانی بندرگاہ بندر جاسک کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا۔
آئل ٹینکر سوئز راجن اب نئے نام سینٹ نکولس سے رجسڑ ڈہے اور ایک یونانی کمپنی ایمپائرنیویگیشن کی ملکیت ہے۔ ایتھنز میں قائم اس جہاز راں کمپنی نے اپنے ایک بیان میں جہاز سے رابطہ ٹوٹنے کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس کے عملے میں 18 فلپینی اور ایک یونانی شہری شامل تھا۔
کمپنی نے یہ بھی کہا ہے کہ اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ ایرانی بحریہ نے جہاز کو اپنی ایک عدالت کے حکم پر پکڑا ہے اور نہ ہی کسی نے اس سے اب تک رابطہ کیا ہے۔
سوئز راجن کی کہانی فروری 2022 میں اس وقت شروع ہوئی جب ایک گروپ یونائیٹڈ اگینسٹ نیوکلیئر نے کہا کہ اسے شبہ ہے کہ یہ جہاز ایک ایرانی جزیرے سے تیل لے کر خلیج فارس میں واقع ایک اہم آئل ٹرمینل کی طرف جا رہا ہے۔
بعد ا زاں یہ جہاز مہینوں تک سنگاپور کے شمال مشرقی ساحل پر بحیرہ جنوبی چین میں چھپا رہا اور پھر امریکہ میں ریاست ٹیکساس چلا گیا۔
ستمبر میں ایمپائر نیوی گیشن نے ایرانی خام تیل کی اسمگلنگ کا اعتراف کرتے ہوئے 24 لاکھ ڈالر جرمانہ ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔
سوئز راجن کے امریکہ جانے کے بعد، ایران نے آبنائے ہرمز کے قریب دو ٹینکر قبضے میں لیے، جن میں سے ایک پر تیل کی ایک بڑی امریکی کمپنی شیورون کارپوریشن کا سامان لدا ہوا تھا۔ جولائی میں پاسداران انقلاب نے سویز راجن کے بارے میں دھمکی دی تھی۔