مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی: امریکہ اور برطانیہ کے یمن میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر حملے

واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی/اے پی/رؤئٹرز) بحیرۂ احمر میں موجود امریکی اور برطانوی بحریہ نے یمن کے مختلف علاقوں میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے ہیں۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ جنگی بحری جہاز کے ٹوماہاک کروز میزائل اور جنگی طیاروں کے حملوں میں 12 ٹھکانوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں داراحکومت صنعا اور بحیرۂ احمر میں حوثیوں کا گڑھ سمجھی جانے والی بندرگاہ الحدیدہ بھی شامل ہے۔

یہ حملے ایران کے حمایت یافتہ گروہ کی بحیرۂ احمر میں کارروائیوں کی وجہ سے کیے گئے جن میں انھوں نے مسلسل تجارتی جہازوں کو نشانہ بنایا ہے۔ حماس کی حمایت کرنے والے حوثیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اسرائیل سے تعلق رکھنے والی کشتیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ان کی کارروائیاں غزہ پر اسرائیلی حملوں کا ردعمل ہے۔ انھوں نے اسرائیل پر متعدد میزائل اور ڈرون حملے بھی کرنے کی کوشش کی۔

امریکی حکام نے ایسوسی ایٹڈ پریس نیوز ایجنسی کو بتایا کہ جمعے کی صبح یمن میں حوثیوں کے متعدد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں رسد کے گڑھ، فضائی دفاع کے نظام اور اسلحے کے ڈیپو شامل ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اس موقع پر کہا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے آسٹریلیا، بحرین، کینیڈا اور نیدرلینڈز کی حمایت کے ساتھ کامیابی سے حوثی باغیوں کے اہداف کو نشانہ بنایا۔

صدر بائیڈن نے کہا ’یہ حملے ایک واضح پیغام ہے کہ امریکہ اور ہمارے اتحادی اپنے اہلکاروں کے خلاف حملے برداشت نہیں کریں گے اور مخالف عناصر کو آزادانہ آمد و رفت کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ضرورت پڑنے پر وہ مزید عسکری کارروائی کا حکم دینے سے گریز نہیں کریں گے۔

برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک نے جمعہ کی صبح ایک بیان میں حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے انھیں ’دفاع میں محدود، ضروری اور متناسب کارروائی‘ قرار دیا ہے۔

آسٹریلیا، بحرین، کینیڈا، ڈنمارک، جرمنی، نیدرلینڈ، نیوزی لینڈ، کوریا، برطانیہ اور امریکہ کی حکومتوں نے اس کارروائی سے متعلق ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔

بیان میں حوثیوں کے خلاف بین الاقوامی برادری کے ’وسیع اتفاق رائے‘ کا حوالہ دیا گیا ہے اور گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرارداد کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں باغیوں سے بحیرۂ احمر میں بحری جہازوں پر حملے روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ حملے ’انفرادی اور اجتماعی دفاع کے اپنے حق کے مطابق‘ کیے گئے تھے۔

’ان درست حملوں کا مقصد حوثیوں کی عالمی تجارت اور دنیا کے سب سے اہم آبی گزرگاہوں میں سے ایک میں بین الاقوامی میرینرز کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی کوششوں میں خلل ڈالنا اور ان کو کم کرنا تھا۔‘

اتحادیوں کا کہنا ہے کہ ’ہمارا مقصد کشیدگی کو کم کرنا اور بحیرہ احمر میں استحکام کو بحال کرنا ہے۔‘

گذشتہ برس نومبر میں حوثی باغیوں کی جانب سے ڈرون اور بحری جہاز پر میزائل حملے شروع ہونے کے بعد بحیرۂ احمر میں امریکی فوج کی جانب سے اس طرح کی یہ پہلی کارروائی ہے۔

حوثی باغی بحیرۂ احمر اور خلیج عدن میں تجارتی بحری جہازوں کو میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنا رہے ہیں اور اس سے نہ صرف عالمی معیشت کو خطرہ ہے بلکہ خطے کو بھی غیر مستحکم کر رہے ہیں۔

بی بی سی کے دفاعی نامہ نگار جوناتھن بیل کی رپورٹ کے مطابق قبرص کے اکروتیری ہوائی اڈے سے اڑان بھرنے والے چار آر اے ایف ٹائفون طیاروں نے پیو وے بموں کا استعمال کرتے ہوئے یمن میں حوثی باغیوں کے دو ٹھکانوں پر فضائی حملے بھی کیے ہیں۔

حوثیوں نے اسرائیلی اہداف کو کیسے نشانہ بنایا؟

یمن کے بڑے حصے پر کنٹرول رکھنے والے حوثی باغیوں نے خبردار کیا تھا کہ وہ بحیرۂ احمر سے اسرائیل آنے اور جانے والے ہر بحری جہاز کو نشانہ بنائیں گے۔

گذشتہ برس نومبر میں بحیرۂ احمر سے گزرتی ہوئی ایک کارگو شپ کو حوثی باغیوں نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس کارگو شپ کی ملکیت کی کڑیاں اسرائیل سے ملتی تھیں۔ گذشتہ دو مہینوں کے دوران حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر سے گزرنے والے متعدد تجارتی جہازوں کو راکٹوں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا ہے۔

نومبر اور دسمبر کے درمیان بحیرۂ احمر میں حوثیوں کے حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ خطرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ بڑی شپنگ کمپنیوں نے اس خطے میں جہازوں کی آمدو رفت کو بند کر دیا ہے اور دسمبر کے اوائل سے انشورنس کے اخراجات 10 گنا بڑھ گئے ہیں۔

انٹرنیشنل چیمبر آف شپنگ کا کہنا ہے کہ دنیا کے 20 فیصد تجارتی بحری جہاز اب بحیرۂ احمر سے گزرنے میں گریز کر رہے ہیں اور اس کی بجائے افریقہ کے جنوب سے زیادہ طویل راستہ استعمال کر رہے ہیں۔

اس حملوں کے بعد دنیا کی متعدد بڑی شپنگ کمپنیوں نے بحیرہ احمر میں اپنے آپریشنز معطل کر دیے ہیں یا اپنے جہازوں کو طویل اور متبادل راستوں کی جانب سے موڑ دیا ہے۔ ماہرین نے اس صورتحال کے باعث دنیا میں تیل کی قیمتوں اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

19 اکتوبر کو اسرائیل کے غزہ پر حملے کے بعد حوثیوں نے اسرائیل کی جانب متعدد میزائل داغے۔

امریکہ کے مطابق انھوں نے ان میں سے متعدد میزائلوں کو بحیرہ احمر میں مار گرایا جبکہ باقی یا تو سمندر میں گر گئے یا مصر کے حدود میں گرے۔

نومبر 2023 میں حوثی باغیوں نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے اسرائیل کے ایک تجارتی بحری جہاز کو بحیرہ احمر میں اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور اسے یمن کے ساحلی علاقے کے قریب لے کر جایا جا رہا ہے۔

اسرائیل نے کہا تھا کہ یہ بحری جہاز اسرائیل کی ملکیت نہیں اور نہ ہی اس پر سوار عملے کا کوئی رکن اسرائیلی ہے۔ لیکن غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق شاید جہاز کا مالک اسرائیلی شہریت ہی رکھتا ہے۔

تین دسمبر سے حوثیوں نے یمن کے ساحل سے بحیرہ احمر میں متعدد تجارتی کشتیوں کو بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا ہے۔

امریکی، برطانوی اور فرانسیسی جنگی جہازوں نے ان میں سے متعدد میزائلوں کو فضا میں ہی مار گرایا لیکن متعدد کشتیوں تک پہنچنے اور انھیں نقصان پہچانے میں کامیاب رہے۔

دنیا کی سب سے بڑی شپنگ فرم میڈیٹرینین شپ کمپنی نے کہا ہے وہ اپنی کشتیوں کو بحیرہ احمر میں نہیں بھیج رہے۔ فرانسیسی کمپنی سی ایم اح سی جی ایم، ڈینش شپنگ فرم میرسیک، جرمن فرم ہیپگ لوئڈ اور تیل کی کمپنی برٹش پیٹرولیم نے بھی یہی اعلان کیا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج کے آپریشنز چلانے والی امریکی فوج کی سینٹ کام نے کہا تھا کہ ’یہ حملے یمن میں حوثیوں نے کیے جنھیں ایران نے مکمل طور پر فعال بنایا۔‘

امریکہ نے تجارتی کشتیوں کی حوثی حملوں سے حفاظت کے لیے ایک بحری ٹاسک فورس کی سفارش کی ہے۔

حوثی باغی کون ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں؟

حوثی ایک باغی گروہ ہے جس کا تعلق یمن کی اقلیت زیدی شیعہ فرقے سے ہے۔

یہ گروہ 1990 کی دہائی میں تشکیل پایا تھا اور اس کا مقصد اس وقت کے صدر علی عبدللہ صالح کی کرپشن کا مقابلہ کرنا تھا۔

انھوں نے اپنا نام اس تحریک کے بانی ’حسین الحوثی‘ کے نام سے لیا ہے۔ حوثی اپنے آپ کو ’انصار اللہ‘ بھی کہتے ہیں۔

سنہ 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے بعد حوثیوں نے ’اللہ اکبر، مرگ برامریکہ، مرگ براسرائیل، یہودیوں پر لعنت، اسلام کی فتح‘ کا نعرہ لگانا شروع کیا۔

انھوں نے اعلان کیا کہ وہ حماس اور حزب اللہ کے سات ایران کے زیر سرپرستی اسرائیل، امریکہ اور مغرب کے خلاف ’مزاحمتی قوتوں‘ کا حصہ ہیں۔

یوروپی انسٹیٹیوٹ آف پیس کے یمن کے ماہر ہشام العمیسی کا کہنا ہے کہ یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ حوثیوں کی تاریخ یہ واضح کرتی ہے کہ وہ اب بحیرہ احمر میں اسرائیل جانے والے بحری جہازوں پر کیوں حملہ کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’اب وہ دراصل سامراجی طاقتوں سے لڑ رہے ہیں، وہ ملت اسلامیہ کے دشمنوں سے لڑ رہے ہیں، اور یہ پیغام اُن کے حمایتیوں کو سمجھ آتا ہے۔‘

حوثیوں نے یمن کے ایک بڑے حصے ہر قبضہ کیسے کر لیا؟

سنہ 2014 کی ابتدا میں حوثیوں کو بڑی سیاسی حمایت تب حاصل ہوئی جب وہ علی عبدللہ صالح کے بعد یمن کے بننے والے نئے صدر عبدربه منصور ہادی کے خلاف کھڑے ہوئے۔

انھوں نے اپنے سابق حریف علی عبدللہ صالح کے ساتھ معاہدہ کر لیا تھا اور اب وہ انھیں دوبارہ سے اقتدار میں لانا چاہتے تھے۔

حوثی باغیوں نے سنہ 2015 کی ابتدا میں یمن کے شمالی صوبے صعدہ اور اس کے بعد یمنی دارالحکومت صنعا پر بھی قبصہ کر لیا جس کے بعد صدر ہادی ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

یمن کے پڑوسی ملک سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کی حمایت کے ساتھ عسکری مداخلت کرتے ہوئے حوثیوں کو پسپا کر کے صدر ہادی کو دوبارہ طاقت میں لانے کی کوشش کی۔

حوثیوں نے ان کی جارحیت کا مقابلہ کیا اور ابھی بھی یمن کے بڑے حصہ پر ان کا قبضہ ہے۔

سنہ 2017 میں جب سابق صدر علی عبدللہ صالح نے اپنا اتحاد تبدیل کر کے سعودی عرب کے ساتھ ملنا چاہا تو حوثیوں نے ان کا قتل کر دیا۔

حوثی باغیوں کی مدد کون کرتا ہے؟

حوثی باغی لبنانی عسکری شیعہ گروہ حزب اللہ سے متاثر ہیں۔

سنہ 2014 میں امریکی تحقیقی ادارے کامبیٹنگ ٹیررازم سینٹر کے مطابق 2014 سے حزب اللہ ان حوثی باغیوں کو عسکری مہارت اور ٹریننگ مہیا کر رہا ہے۔

سعودی عرب کے ساتھ مشترکہ دشمنی کی وجہ سے حوثی ایران کو اپنا اتحادی سمجھتے ہیں۔

یہ شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ حوثی باغیوں کو ہتھیار ایران فراہم کرتا ہے۔

امریکہ اور سعودی عرب کا کہنا ہے کہ سعودی دارالحکومت ریاض پر حوثیوں کی طرف سے داغے گئے بیلسٹک میزائل ایران نے فراہم کیے تھے جنھیں اپنے اہداف پر پہنچنے سے قبل مار گرایا گیا۔

سعودی عرب نے یہ الزام بھی لگایا کہ سنہ 2019 میں حوثیوں نے جن کروز میزائلوں اور ڈرونز سے سعودی تیل تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا وہ بھی ایران نے فراہم کیے تھے۔

حوثیوں نے ماضی میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی مدد سے سعودی عرب کے متحدہ عرب امارات کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

یمن کے حوثی کتنی بڑی طاقت ہیں اور ان کے قبضے میں کتنا علاقہ ہے؟

یمن کی سرکاری حکومت صدارتی رہنمائی کونسل ہے اور سابق صدر ہادی نے اپریل 2022 میں اقتدار اس کونسل کے حوالے کیا تھا۔ یہ کونسل سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں واقع ہے۔

تاہم یمن کی اکثریتی آبادی ان علاقوں میں رہتی ہے جہاں کا قبضہ حوثیوں کے پاس ہے اور وہ ملک کے شمالی حصے میں لوگوں سے ٹیکس بھی لیتے ہیں اور اپنے کرنسی نوٹ بھی چھاپتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حوثی تحریک کے ایک ماہر احمد البحری کا حوالہ دیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ 2010 تک حوثیوں کے 100,000 سے 120,000 کے درمیان کارکن تھے، جو مسلح افواج اور غیر مسلح حامیوں پر مشتمل تھے۔

اقوام متحدہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2020 میں یمن کے حوثی باغیوں کی طرف سے بھرتی کیے گئے 1500 بچے لڑائی میں مارے گئے اور اس سے اگلے سال کئی سو مزید بچے مارے گئے۔

بحیرہ احمر کے ساتھ یمن کے ساحل کا بڑا حصہ حوثیوں کے قبضے میں ہے اور یہاں سے وہ کشتیوں پر حملے کر رہے ہیں۔

ہشام العمیسی کا کہنا ہے کہ ان حملوں نے سعودی عرب کے ساتھ حوثیوں کے موجودہ امن مذاکرات میں مدد کی ہے۔

وہ کہتے ہیں ’سعودیوں کو یہ دکھا کر کہ وہ (حوثی) دراصل بحیرہ احمر کے آبنائے، باب المندب، کو بند کر سکتے ہیں۔ وہ رعایتوں کا مطالبہ کرتے ہوئے سعودیوں پر زیادہ دباؤ ڈال رہے ہیں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں