پاکستان پر میزائل حملہ: ’پہلی بار ہے کہ ایران اس کارروائی کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے، جیسے اسے اس پر فخر ہو‘

تہران (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایران کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے گذشتہ رات پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں میزائل حملے کے بعد یہ موضوع زیرِ بحث ہے کہ اس حملے کے دونوں ممالک کے تعلقات پر کس طرح کے اثرات مرتب ہوں گے۔

منگل کی رات ایران کے نیم سرکاری اور پاسدارانِ انقلاب سے منسلک میڈیا نے یہ دعوی کیا تھا کہ ایرانی فورسز کی جانب سے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں شدت پسند گروہ ’جیش العدل‘ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان نے بلوچستان کے علاقے پنجگور میں ایران کے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعے میں دو بچے ہلاک اور تین لڑکیاں زخمی ہوئی ہیں۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کا اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ناقابلِ قبول ہے اور اس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق حکومت کی جانب سے ایران سے اپنا سفیر بُلانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اسلام آباد میں ایرانی سفیر بھی فی الوقت پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔

لیکن ایران کی طرف سے پاکستان کی سرحدی یا فضائی حدود کی خلاف ورزی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔

اس سے قبل پاکستان سکیورٹی فورسز نے 2017 میں اپنی فضائی حدود میں داخل ہونے والا ایک ایرانی ڈرون بھی مار گرایا تھا۔

تاہم پاکستان اور ایران کے تعلقات پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ منگل کی رات پنجگور میں ایران کی جانب سے کی جانے والی کارروائی نہ صرف باعثِ تشویش بلکہ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

’ایران اس کارروائی کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے‘

برطانوی تھنک ٹینک اسلامک تھیولوجی آف کاونٹر ٹیررازم کے ڈپٹی ڈائریکٹر فاران جعفری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ماضی میں ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں کہ ایران کے سرحدی گارڈز مبینہ عسکریت پسندوں کا پیچھا کرتے ہوئے پاکستانی حدود میں داخل ہو گئے ہوں لیکن وہ زیادہ اندر نہیں آتے تھے اور فوراً واپس چلے جاتے تھے۔‘

فاران جعفری کے مطابق ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ ایرانی میزائل پاکستانی حدود میں آ گرے ہوں لیکن یہ واقعات دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں ہوئے تھے۔

فاران جعفری کا مزید کہنا تھا کہ ’لیکن ماضی کے واقعات اور گذشتہ رات ہونے والے ایرانی حملے میں یہ فرق ہے کہ ایران اس کارروائی کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے۔‘

’اس بار ایران کا نیم سرکاری اور پاسدارانِ انقلاب سے منسلک میڈیا اس کا ڈھول پیٹ رہا ہے جیسے کہہ رہے ہوں کہ ہمیں اپنی کارروائی پر فخر ہے۔‘

پاکستان کے سابق سفیر علی سرور نقوی نے پاکستانی حدود میں ایرانی حملے کو ’تشویشناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ممالک کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے تاہم انھوں نے دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی قسم کی فوجی محاذ آرائی کے امکانات کو مسترد کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان اس پر ایک واضح بیان جاری کر چکا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری سرحدی حدود اور خودمختاری کی کوئی خلاف ورزی کرے۔‘

علی سرور نقوی کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان معاملات بات چیت کے ذریعے ہی حل ہوں گے۔

’دونوں ممالک کو بیٹھ کر بات چیت کرنی چاہیے کہ کون سے ایسے گروہ یا تنظیمیں ہیں جو ایران مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور دونوں ممالک ساتھ مل کر کام کریں۔‘

’ایران کی منافقت اور دُہرا معیار مذمت کا مستحق ہے‘

ماضی میں متعدد حکومتوں کا بطور وزیر حصہ رہنے والے مشاہد حسین سید نے ایران کے پاکستان پر حملے کو اسلامک ممالک کی یکجہتی کی روح کے منافی قرار دیا۔

انھوں نے بی بی سی کی صحافی شمائلہ جعفری کو بتایا کہ ’بجائے اس کے کہ ایران اپنا اضطراب اسرائیل پر نکالتا، ایران پچھلے 24 گھنٹے میں تین اسلامی ممالک پر حملہ کر چکا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسی منافقت اور دُہرا معیار مذمت کا مستحق ہے۔ میرے ذاتی خیال میں یہ ایرانی ڈیپ سٹیٹ، پاسدارانِ انقلاب کا عمل ہے اور اسے اسی طرح سے دیکھا جانا چاہیے۔‘

واضح رہے کہ پاسداران انقلاب اسلامی کا قیام 1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد نئے اسلامی نظام کے دفاع کے لیے عمل میں آیا تھا۔ یہ بنیادی طور پر ایک متبادل فوجی قوت کے طور پر ایران کی باقاعدہ فوج کے طور پر کام کرتا تھا۔

لندن میں چیتھم ہاؤس کے بین الاقوامی امور کے تھنک ٹینک سے وابستہ ڈاکٹر صنم وکل کہتی ہیں کہ ’یہ ایک ملیشیا بریگیڈ ہوا کرتی تھی لیکن اب یہ ایک بہت بڑی تنظیم بن چکی ہے۔‘

پاسداران انقلاب اسلامی کی اپنی زمینی، بحری اور فضائی افواج ہیں جن میں مجموعی طور پر ایک لاکھ 90 ہزار اہلکار ہیں۔ پاسداران انقلاب ایران کے بلیسٹک میزائل اور ایٹمی پروگراموں کی بھی نگرانی کرتا ہے۔

پاسداران انقلاب اسلامی نے دفاع، انجنیئرنگ اور تعمیرات جیسے شعبوں میں کمپنیوں کی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی کاروباری سلطنت قائم کر رکھی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ ایران کی معیشت کا ایک تہائی حصہ اس کے کنٹرول میں ہے۔

پاکستان ایران تعلقات

ماضی میں پاکستان اور ایران کے تعلقات اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے 1947 میں پاکستان کو خودمختار ریاست تسلیم کیا اورانڈیا اور پاکستان کے درمیان 1965 کی جنگ کے دوران تہران نے پاکستان کی حمایت کی تھی۔

لیکن 1979 میں ایران میں انقلاب کے بعد پاکستان کی قربت سعودی عرب سے بڑھ گئی۔

پچھلے کئی برسوں سے ایران پر پاکستانی حکام کی جانب سے فرقہ وارانہ تنظیموں کے لیے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کا الزام بھی لگایا جا رہا ہے۔

اسلامک تھیولوجی آف کاونٹر ٹیررازم کے ڈپٹی ڈائریکٹر فاران جعفری کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں زینبیون کے لوگ پکڑے جاتے ہیں جو شام میں بھی لڑ چکے ہیں اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ یا فیڈرل انویسٹیگیشن ایجسنی کے حکام ایران کا نام نہیں لیتے بلکہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ پکڑے جانے والے افراد نے ایک پڑوسی ملک میں تربیت حاصل کی۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں