پشاور (ویب ڈیسک) توہین مذہب کے الزام میں قتل ہونے والے مشال خان کے والد اقبال خان نے انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) کے فیصلے میں سزا پانے والے اور بری ہونے والے ملزمان کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں اپیلیں دائر کردیں۔
اقبال خان کی جانب سے مشال قتل کیس کے فیصلے پر پشاور ہائیکورٹ میں بیرسٹر عامر خان کی وساطت سے 3 اپیلیں دائر کی گئیں۔
عدالت میں دائر پہلی اپیل اے ٹی سی عدالت سے بری ہونے والے اظہار اور صابر کی بریت کے خلاف ہے جبکہ دیگر 2 اپیلیں عمر قید پانے والے عارف اور اسد ضیا کے خلاف دائر کی گئی ہیں۔
ان اپیلوں میں مجرم عارف اور اسد ضیا کی عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کرنے کی استدعا کی گئی ہے جبکہ بری ہونے والے ملزمان کی بریت کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ 21 مارچ کو اے ٹی سی نے مشال خان قتل کیس کے آخری 4 ملزمان سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے 2 ملزمان کو عمر قید جبکہ 2 کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔
صوبائی دارالحکومت کی اے ٹی سی عدالت نمبر 3 کے جج محمود الحسن خٹک نے مشال خان قتل کیس میں گرفتار آخری 4 ملزمان سے متعلق 12 مارچ کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا تھا۔
عدالتی فیصلے میں عمر قید کی سزا پانے والوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کونسلر عارف خان اور دوسرا مجرم اسد شامل تھا جبکہ ملزمان صابر اور اظہار اللہ کو بری کردیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ 23 سالہ مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو خیبر پختونخوا (کے پی) میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین مذہب کے الزام پر ہجوم نے تشدد کانشانہ بنا کر قتل کردیا تھا۔
مشال خان کی قتل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ملک میں شدید غم و غصے کی لہر پیدا ہوگئی تھی۔
اس واقعے کے فوری بعد ہی اس وقت کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے مشال کے قتل کی جوڈیشل انکوائری کے لیے سمری پر دستخط کرکے باقاعدہ منظوری دی تھی، جبکہ اگلے روز 15 اپریل کو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے مشال قتل کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے پولیس سے واقعے کی رپورٹ بھی طلب کی۔
بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے مشال خان کے والد کی جانب سے درخواست پر مقدمے کو مردان سے اے ٹی سی ایبٹ آباد منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
اے ٹی سی نے مقدمے کی سماعت کا آغاز ستمبر 2017 میں کیا جبکہ یونیورسٹی کے طلبا اور اسٹاف کے اراکین سمیت گرفتار 57 مشتبہ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی اور گرفتار ملزمان کی ضمانت کی درخواست بھی مسترد کردی گئی تھی۔
مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کے سامنے 50 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے اور وکلا کی جانب سے ویڈیو ریکارڈ بھی پیش کیا گیا جس میں گرفتار ملزمان کو مشال خان پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔
مشال خان کے والد قیوم خان، ان کے دوست اور اساتذہ نے بھی اے ٹی سی کے سامنے اپنے بیانات ریکارڈ کروائے تھے۔
بعد ازاں 7 فروری 2018 کو ہری پور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مشال خان کے قتل کیس کا فیصلہ سنایا تھا، جس میں ایک مجرم کو سزائے موت، 5 مجرموں کو 25 سال قید اور 25 مجرموں کو 3 سال قید جبکہ عدالت نے 26 افراد کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم اس کیس میں اظہار اللہ اور صابر سمیت 4 ملزمان مفرور تھے، جن کی گرفتاری کے لیے ٹرائل کورٹ نے وارنٹ جاری کیے تھے اور انہیں مشال خان قتل کیس میں اشتہاری قرار دیا تھا۔
علاوہ ازیں ہائی کورٹ نے بعد ازاں مفرور ملزمان کا ٹرائل اے ٹی سی پشاور کو منتقل کردیا تھا۔
جس کے بعد ملزمان اسد کٹلنگ، صابر مایار، عارف خان مردانوی اور اظہار اللہ عرف جوہنی کو گرفتار کرکے ان کے خلاف ٹرائل چلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ٹرائل میں بیرسٹر امیر اللہ خان، شہاب خٹک اور افضل خان نے مشال خان کے والد کی نمائندگی کی تھی۔
پشاور ہائی کورٹ نے گزشتہ سال اگست 2018 میں 2 ملزمان اظہار اللہ عرف جوہنی اور صابر مایار کی دی گئی ضمانت کی درخواست کو مسترد کردیا تھا اور ٹرائل کورٹ کو 2 ماہ کے اندر ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔
ستمبر 2018 میں انسداد دہشت گردی عدالت نے مشال خان قتل کیس میں ملوث چاروں ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی۔
اس کے بعد اس کیس مزید ٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت پشاور میں ہوا، جہاں وکلا نے دلائل دیے اور گواہوں اور مشال کے والد کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔
واضح رہے کہ رواں برس فروری میں پشاور ہائیکورٹ کے ایبٹ آباد بینچ نے مشال خان قتل کیس میں 3، 3 سال قید کی سزا پانے والے 25 مجرمان کی ضمانت منظور کرلی تھی، تاہم اس فیصلے کے خلاف متعدد درخواستیں دائر کی گئیں جس کے بعد ہائی کورٹ نے درخواستیں نمٹانے کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
تاہم انسداد دہشت گردی عدالت میں مشال قتل کیس کا ٹرائل چلتا رہا اور 12 مارچ کو عدالت نے کیس کے آخری 4 ملزمان سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے پہلے 16 مارچ کو سنایا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اسے موخر کرکے 21 مارچ کو سنایا گیا۔