پاک ایران تعلقات میں اُتار چڑھاؤ: سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کرنے والا ملک اب اس پر حملہ آور کیوں ہوا؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) ’ایران کو عالمی سطح پر پابندیوں کا سامنا ہے، اس وجہ سے ہم گذشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے امریکہ میں ایران کی جگہ سفارتکاری کرتے آ رہے ہیں۔۔۔‘ یہ الفاظ سنہ 2014 میں اُس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی نے پاکستان سے آئے صحافیوں کے ایک وفد سے واشنگٹن ڈی سی میں غیر رسمی گفتگو میں کہے تھے۔

میں صحافیوں کے اس گروپ کا حصہ تھا جس سے جلیل عباس جیلانی نے یہ گفتگو کی تھی۔

اِس وقت جلیل عباس جیلانی پاکستان کے نگران وزیر خارجہ بھی ہیں اور وہ حالیہ کشیدگی کو کم کرنے کی غرض سے ایرانی وزیر خارجہ سمیت حکام سے رابطے میں ہیں۔

پاکستان کی جانب سے ایران کی بات بین الاقوامی فورمز پر کرنے کے جلیل عباس جیلانی کے دعوے کی تصدیق پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری بھی کرتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں متعدد مرتبہ پاکستان نے امریکہ اور ایران کے درمیان پیغام رساں کا کردار ادا کیا ہے۔

اس پس منظر میں اہم سوال یہ ہے کہ ایک ایسا ملک (ایران) جس کی پاکستان عالمی سطح پر سفارتکاری کرتا آیا ہو اُس نے کیسے اور کن وجوہات کی بنا پر ’اپنے ہی سفیر‘ کے خلاف غیرمتوقع محاذ کھول دیا ہے؟

ایران کی طرف سے پاکستان میں حملے اور پھر پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد اب یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا ایران اور پاکستان پُرامن ہمسائے اور دوست ہیں یا پھر حریف؟

بی بی سی نے ماہرین سے بات کر کے دونوں ممالک کے تعلقات کے تاریخی پس منظر میں ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔

ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے دوست یا حریف؟

قائد اعظم یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر قندیل عباس نے بی بی سی کو بتایا کہ ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے سنہ 1947 میں پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا۔ ان کی رائے میں پہلے دن سے ایران اور پاکستان نے ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ایران ہر فورم پر کشمیر سمیت ان اہم معاملات پر پاکستان کے مؤقف کا اعادہ کرتا آیا ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اہمیت کے حامل ہیں۔

سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے مطابق سنہ 1965 اور سنہ 1971 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگوں میں بھی ایران نے پاکستان کا کُھل کر ساتھ دیا اور اسلام آباد کو تہران کی سفارتی حمایت حاصل رہی۔

ان کے مطابق چند مواقع اور معاملات پر تناؤ اور مشکلات کے باوجود پاکستان اور ایران کے تعلقات عمومی طور پر دوستانہ ہی رہے ہیں۔

قندیل عباس کے مطابق یہ تعلقات بغیر کسی بڑے چیلنج کے سنہ 1979 تک بہت اچھے طریقے سے آگے بڑھ رہے تھے۔ دونوں ممالک کی ہی خارجہ پالیسی کی بنیاد مغربی ممالک سے اچھے تعلقات پر تھی تاہم سنہ 1979 میں ایران کے اسلامی انقلاب نے اس کی خارجہ پالیسی کو یکسر تبدیل کر دیا۔

ان کے مطابق ایران میں اسلامی جمہوریہ قائم ہونے کے بعد ایران مغرب مخالف کیمپ میں جا کر کھڑا ہوا اور یہی وہ وقت تھا جب ایران نے عرب ممالک کو بھی ’عرب بمقابلہ عجم‘ کے تناظر میں دیکھنا شروع کیا۔

قندیل عباس کے مطابق ایران کی خارجہ اور اندروںی پالیسیوں میں آنے والے بڑی تبدیلیوں کے باوجود بھی اس کے پاکستان سے تعلقات بہتر ہی رہے۔

قندیل عباس کے مطابق ’پاکستان جب 28 مئی 1998 کو جوہری ملک بنا تو ایران میں اس بات کا جشن منایا گیا تھا۔ تاہم اس کے بعد پاکستان پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ذریعے جوہری راز کی متعدد ممالک کو فروخت کا الزام بھی لگا، جس میں ایران کا نام بھی لیا گیا۔‘

بی بی سی کے سکیورٹی نامہ نگار گورڈن کوریرا کی اکتوبر 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق ’ڈاکٹر عبدالقدیر نے ایٹمی ہتھیاروں کے اجزا فراہم کرنے والے اپنے خفیہ نیٹ ورک کو درآمد سے برآمد کی طرف موڑ دیا، جس کے بعد انھوں نے کئی ممالک کے ساتھ معاہدے اور سودے کیے۔ ان میں سے بہت سے ممالک کو مغربی ممالک ’باغی ریاستیں‘ سمجھتے تھے۔ ایران کے شہر نطنز میں ایٹمی پروگرام کے لیے سینٹری فیوجز کی تیاری کا پروگرام جو گذشتہ برسوں میں شدید عالمی سفارتکاری کی ایک وجہ بنا رہا ہے، اس کا نمایاں حصہ عبدالقدیر کے فراہم کردہ ڈیزائن اور مواد سے بنایا گیا تھا۔‘

اسی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ایک ملاقات میں عبدالقدیر خان کے نمائندوں نے ایران کو ایک ایٹمی پروگرام کی تیاری میں استعمال ہونے والے مواد اور اجزا کی ایک فہرست فراہم کی تھی جس میں قیمتیں بھی درج تھیں اور ایرانی حکام اس کے مطابق مال کا آرڈر دے سکتے تھے۔‘

یہ وہ معاملہ پر جس پر ایران اور پاکستان کے تعلقات عالمی سطح پر زیربحث آئے اور اس ضمن میں خدشات کا اظہار کیا گیا۔ تاہم جنرل مشرف کے دور میں ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سرکاری ٹی وی پر دیگر ممالک کو جوہری راز کی فروخت کے الزامات تسلیم کیے جس کے بعد سنہ 2004 میں انھیں معافی دینے کے بعد ان کے گھر میں نظربند کر دیا گیا تھا۔

قصہ مختصر ایران کے مبینہ جوہری پروگرام کے حوالے سے بھی پاکستان نے ایک غیررسمی سفیر کا کردار ادا کیا۔ اس ضمن میں خورشید محمود قصوری بتاتے ہیں کہ ایران کا یہ مؤقف امریکہ کی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس تک بھی پاکستان کے چینل سے پہنچایا گیا کہ ایران جوہری توانائی کا حصول پرُامن مقاصد کے لیے چاہتا ہے اور وہ بات چیت پر یقین رکھتا ہے۔

فراز حسین انسٹیٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز میں ایران پروگرام کے انچارج ہیں۔ ان کے مطابق دونوں ملکوں کے بیچ باہمی تعلقات کی تاریخ میں ایسے واقعات ہوئے جو روابط میں اُتار چڑھاؤ کا باعث بنتے رہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان اور ایران میں 1990 کی دہائی میں تعلقات میں اس وقت سرد مہری پیدا ہوئی جب ایران میں کچھ پاکستانی اور پاکستان میں کچھ ایرانی شہری مبینہ فرقہ وارایت کے بنیاد پر قتل ہوئے۔ اس میں سے اہم واقعہ ایرانی سفارتکار صادق گنجی کے پاکستان میں قتل کا تھا۔ اس قتل کے الزام میں کالعدم سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے شیخ حق نواز جھنگوی کو میانوالی جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔

تاہم فرقہ وارانہ بنیاد پر تعلقات میں کشیدگی نوے کی دہائی کی ابتدا تک ہی محدود رہی۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں ایران کے انڈیا کے ساتھ قریبی روابط پر تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ جس کی ابتدا بلخصوص مئی 2016 میں اس وقت ہوئی جب وزیر اعظم نریندر مودی نے ایران کا دورہ کیا اور پھر ایران میں چاہ بہار بندرگاہ کو ترقی دینے اور چلانے کے لیے انڈیا، ایران اور افغانستان کے مابین سہ فریقی تعلقات کے لیے 550 ملین ڈالر کے فنڈ کا اعلان کیا تھا۔

تاہم دوسری جانب خورشید محمود قصوری کا کہنا ہے کہ ایران میں بھی پاکستان میں بننے والی گوادر پورٹ منصوبے پر تشویش پائی جاتی تھی اور اُن کے دور میں ایرانی حکام نے انھیں پاکستان کے اس منصوبے سے متعلق اپنی تشویش سے آگاہ کیا تھا۔

اس نوعیت کا ایک اور معاملہ پاکستان، ایران گیس پائپ لائن پراجیکٹ کا ہے جس کا افتتاح مارچ 2013 میں پاکستان اور ایران کے صدور نے کیا تھا۔

ایران کا یہ الزام رہا ہے کہ پاکستان عالمی طاقتوں کے دباؤ پر اس منصوبے سے پیچھے ہٹا اور اسے مکمل کرنے سے عاری ہے۔

قندیل عباس کے مطابق ایران نے اپنی طرف سے 900 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کا کام مکمل کر کے پائپ لائن پاکستانی سرحد تک پہنچا دی مگر پاکستان ابھی تک نواب شاہ سے آگے نہیں بڑھ سکا۔

ماضی میں سابق وزیرِ پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ’ایران کے ساتھ کاروبار کی وجہ سے اقوام متحدہ کی پابندیوں کے خدشے کے باعث کوئی بین الاقوامی مالیاتی ادارہ اس منصوبے (گیس پائپ لائن) میں رقم لگانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تعمیراتی کمپنیاں کام کرنے کو تیار نہیں اور ضروری سازوسامان فروخت کرنے والے ادارے بھی اس منصوبے کے لیے سامان فراہم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔‘

ایران پاکستان کا اس وقت بہت شکرگزار ہوا تھا جب پاکستان نے ایران میں شدت پسندی کی کارروائیوں میں ملوث تنظیم جند اللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی کو گرفتار کروانے میں اہم معلومات ایران کو فراہم کیں۔ ایران کے مطابق ریگی شدت پسندی کے متعدد کیسز میں مطلوب تھا اور انھی کیسز میں انھیں ایران میں سزائے موت دی گئی تھی۔

سنہ 2009 میں ریگی کی گرفتاری کے بعد ایران میں تعینات اس وقت کے پاکستانی سفارتکار محمد عباسی نے کہا تھا کہ ایران کو انتہائی مطلوب عسکریت پسند اور جنداللہ کے سابق سربراہ عبدلمالک ریگی کی گرفتاری میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

فراز حسین کے مطابق جب پاکستان نے 11 سمتبر 2001 کے بعد دہشتگردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا اور نان نیٹو اتحادی بن گیا تو ایران میں تشویش پیدا ہوئی اور جب پاکستان نے امریکہ کو فوجی اڈے دیے تو تہران کو یہ لگا کہ اس کا ہر طرف سے محاصرہ ہو رہا ہے تاہم ان کے مطابق سنہ 2021 کے بعد سے پاکستان اور ایران کے تعلقات بہت مثالی رہے ہیں۔

فراز کے مطابق ان چند واقعات اور چند مواقع پر ہونے والی وقتی کشیدگی کے علاوہ پاکستان کے تعلقات ایران سے بہتر رہے ہیں۔

امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر عابدہ حسین کہتی ہیں کہ ماضی میں متعدد مواقع پر پاکستان پر ایران سے متعلق امریکہ کا بہت دباؤ رہتا تھا مگر اس کے باوجود اسلام آباد نے تہران سے تعلق کبھی ختم نہیں کیا۔

عابدہ حسین کے مطابق دونوں ممالک میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ وہ ہمیشہ ہر چیلنج سے بھی باہر نکل آتے ہیں۔

حالیہ تنازع سے قبل ایران میں پاکستان کی سابق سفیر عفت مسعود نے مقامی تھنک ٹینک اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’ہمارے ایران کے ساتھ کوئی زمینی تنازع یا نظریاتی مسئلہ نہیں۔ ہم دونوں مسلمان ملک ہیں۔ ہماری مشترکہ سرحد اور کلچر ہے۔‘

ان کی رائے میں ایران میں پاکستانیوں کی بہت عزت کی جاتی ہے اور انھیں پسند کیا جاتا ہے۔

ایران اور پاکستان آمنے سامنے کیسے آ گئے؟

قندیل عباس کا کہنا ہے ایران پاکستان کا وہ واحد ہمسایہ ملک ہے جس کے ساتھ تقریباً ایک ہزار کلو میٹر کی طویل سرحد پر سنہ 2013 تک ایک فوجی تک تعینات نہیں تھا تاہم ایران اور پاکستان کی مشترکہ سرحد پر سنہ 2013 میں دونوں ممالک میں ’ڈیفنس پیکٹ‘ کے بعد پہلی مرتبہ سکیورٹی جیسے اقدامات اٹھائے گئے اور باہمی رضامندی سے سرحد کے کچھ حصے پر باڑ لگائی گئی۔

ان کے مطابق افغانستان اور انڈیا میں پاکستان کے علیحدگی پسند اور شدت پسند گروپ جا کر پناہ لیتے رہے مگر ایران نے ایسے گروہوں کو کبھی جگہ نہیں دی تاہم پاکستان اور ایران کی سرحد کے دونوں اطراف ایسے علاقے ضرور موجود ہیں جو دونوں ممالک کے انتظام سے باہر ہیں اور یہ گروہ وہاں اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور دونوں ممالک میں بعض اوقات کشیدگی کا باعث بنتے ہیں۔

ان کے مطابق حالیہ معاملہ علیحدگی پسند اور شدت پسند گروہوں کی دونوں ممالک میں آمد و رفت کے الزامات کے باعث پیش آیا۔

قندیل عباس کے مطابق جیش العدل کو پاکستان اور ایران دونوں ہی اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور ماضی میں دونوں ممالک ایسے گروہوں کے خلاف کارروائیاں بھی کرتے رہے ہیں۔

ان کے مطابق جنداللہ جو اب جیش العدل ہے، کے سربراہ عبدالمالک ریگی کی گرفتاری بھی پاکستان کی انٹیلیجنس شیئرنگ سے عمل میں لائی گئی تھی، جب متحدہ عرب امارات سے عبدالمالک ریگی کرغزستان کے لیے طیارے پر جا رہے تھے تو ایران نے اس طیارے کو ایران میں ہی اتار کر اس سے عبدالمالک ریگی کو گرفتار کر لیا اور دو ماہ میں پھانسی بھی دے دی۔

تاہم گذشتہ کچھ عرصے میں ایران کے صوبے سیستان بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور پولیس پر متعدد مہلک حملے ہوئے اور ایران نے متعدد مرتبہ یہ الزام عائد کیا کہ ان حملوں میں ملوث جیش العدل کے جنگجو پاکستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ایران نے باضابطہ طور پر بھی اس ضمن میں پاکستان سے ایکشن لینے کی درخواست کی۔

فراز حسین کے مطابق ایران کی طرف سے پاکستان میں حملوں کی ’ٹائمنگ‘ بہت ہی عجیب ہے۔ ان کے مطابق ایک طرف خلیج فارس میں پاکستان اور ایران بحریہ کی مشقیں چل رہی ہیں اور دونوں ممالک کے حکام ایک دوسرے سے قریبی رابطے میں بھی تھے۔ ’ایران کے نمائندے اسلام آباد میں موجود تھے اور عالمی فورم پر بھی دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام کی ملاقاتیں ہوئی مگر عین ایسے وقت پر ایران نے پاکستان کے اندر حملہ کر دیا۔‘

کیا ایران کے ساتھ اب بھی پرامن ہمسائیگی کا امکان موجود ہے؟

فراز حسین کی رائے میں دونوں ممالک کے تعلقات بحال ہونے میں کچھ وقت ضرور لگے گا تاہم ان کے مطابق مذاکرات کے ذریعے ہی دونوں ممالک اب معاملات کو آگے بڑھائیں گے۔

قندیل عباس کی رائے میں دونوں ممالک کے حکام کی طرف سے جو بیانات سامنے آئے ہیں کہ اس کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ ان کے لیے ریاستی سطح پر اچھے تعلقات اہمیت کے حامل ہیں۔

خورشید محمود قصوری کے مطابق ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے دشمن ہو ہی نہیں سکتے اور اس کی خاص وجہ لوگوں کا ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام کا رشتہ ہے۔ ان کے مطابق ایران کو اپنی حکمت عملی پر از سر نو غور کرنا ہو گا کیونکہ پاکستان کے لیے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ وہ یہ پیغام دے کہ پاکستان کی خودمختاری پر حملہ تمام تر ماضی کے اچھے تعلقات کے باوجود برداشت نہیں کیا جائے گا۔

قندیل عباس کے مطابق ایک دوسرے کی سرزمین پر حالیہ کارروائیوں کے بعد بھی دونوں اطراف سے جاری کردہ بیانات میں حکام نے ایک دوسرے کے لیے اچھے الفاظ کا چناؤ کیا ہے۔ قندیل عباس کے مطابق اس وقت ایران اور پاکستان اس ’تھریٹ‘ کو موقعے میں بدلنے سے متعلق غور کر رہے ہیں۔

سابق سفارتکار عابدہ حسین کے مطابق اس سب کے باوجود ’میرا خیال ہے کہ ایران اور پاکستان اپنے تعلقات کو مثبت حالات میں بدلنے میں کامیاب ہو جائیں گے تاہم ان کی رائے میں موجودہ کیفیت مایوسی والی ہے کیونکہ دونوں ممالک نے اس سے قبل کبھی ایسا کیا نہیں۔‘

عابدہ حسین کے مطابق ’یہ لمحہ ٹل جائے گا تو پھر حالات بہتر ہو سکیں گے کیونکہ دونوں ملکوں کے حق میں یہ بات ہو گی کہ دونوں ریاستوں کے تعلقات مثبت ہوں اور صحیح (سمت پر) چلیں۔‘

عابدہ حسین کا کہنا ہے کہ یہ تہران اور اسلام آباد کے فائدے میں ہے کہ وہ اس معاملے کو ادھر ہی ختم کریں اور پھر اچھے پڑوسی کی طرح اپنے سفر کا آغاز کریں۔

ان کے مطابق ’اگر یہ تعلقات خراب ہوتے ہیں تو دونوں ریاستوں کے لیے اچھے نتائج نہیں نکلیں گے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں