اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بعض سیاست دان بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ کے بیان پر شدید رد عمل کو لاپتہ افراد کے مسئلے سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیتے ہوئےحکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گمشدہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے اس بیان پر کہ ایران میں ہلاک ہونے والے بلوچ افراد کے گھرانے ان کے کیمپ میں بیٹھے ہوئے ہیں، سوشل میڈیا پر تنقید کا ایک طوفان برپا ہو گیا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے جمعرات کے روز ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ انکشاف کیا تھا کہپاکستان کے ایران پر حملوں میں، جو بلوچ افراد مارے گئے ہیں، ان کے اہل خانہ اسلام آباد میں گمشدہ افراد کے کیمپ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے سوشل میڈیا پر ان کا یہ بیان کچھ ہی گھنٹوں میں وائرل ہو گیا اور پاکستانی میڈیا سے تعلق رکھنے والی بعض ممتاز شخصیات سمیت بہت سے دیگر افراد نے اس ویڈیو کلپ کو استعمال کرتے ہوئے اس نوعیت کے تبصرے کیے، جن کے مطابق حکومت کا یہ کہنا ٹھیک تھا کہ نام نہاد گمشدہ بلوچ افراد اپنے طور پر ایران، افغانستان یا دوسرے ممالک چلے جاتے ہیں اور پاکستان کو بد نام کرتے ہیں۔
اس مسئلے پر سب سے سخت بیان بلوچستان حکومت کے ترجمان جان اچکزئی کا آیا جنھوں نے دعویٰ کیا کہ ایران میں پاکستانی حملے کے بعد گمشدہ افراد کے نام پہ ‘نوٹنکی’ کرنے والے بے نقاب ہو گئے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنان اور بعض سیاستدان جان اچکزئی سمیت ان تمام افراد کے بیانات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، جو ماہ رنگ بلوچ کے بیان کو لے کر جبری طور پہ گم شدہ کیے گئے افراد کے معاملے کی حقیقت کو جھٹلا رہے۔
ماہ رنگ بلوچ کی وضاحت
ماہ رنگ بلوچ نے ایک وضاحتی بیان میں ڈی ڈبلیو کو تحریری طور پر بتایا، ”کل ہم نے ایک لمبی پریس کانفرنس کی جس میں سے صرف چھ سیکنڈ کا کلپ اٹھا کر اسے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جارہا ہے اور ہماری تحریک کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔‘‘
ان کا دعویٰ تھا کہ ایران میں مارے جانے والے بلوچ افراد پاکستانی حکومت کے مبینہ جنگی جرائم سے مجبور ہو کر ایران میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔
ماہ رنگ بلوچ کا مزید کہنا تھا، ’’ہم نے سیستان بلوچستان میں مارے جانے والے بلوچ افراد کے نام کبھی بھی گمشدہ افراد کی فہرست میں نہیں لکھے اور جو اس کے برعکس خلاف دعویٰ کرتے ہیں، وہ اپنے دعوے کی سچائی ثابت کریں۔‘‘
‘مارے جانے والے دہشت گرد تھے’
تاہم بلوچستان کی نگران حکومت کے ایک اہم وزیر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ایران میں مارے جانے والے بلوچ مہاجرین نہیں تھے بلکہ دہشت گرد تھے، جنہوں نے کئی پاکستانیوں کو شہید کیا۔‘‘
اس وزیر کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد گمشدہ افراد خود اپنے طور پر مختلف ممالک میں چلے گئے ہیں۔ ” اور وہاں پر وہ ان لوگوں کے ساتھ ساز باز کر رہے ہیں، جو پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اور اس کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔‘‘
پروپیگنڈہ قبول نہیں
گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والے ماما قدیر کا کہنا ہے کہ سیستان میں جو ہوا وہ پاکستان اور ایران کی حکومتوں کے درمیان ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے بلوچستان میں جو لوگ جبری طور پر گمشدہ کیے گئے ہیں ان کو بازیاب کرایا جائے۔ ماہ رنگ بلوچ کے خلاف کسی پروپیگنڈے کو ہم تسلیم نہیں کرتے کیونکہ پاکستانی میڈیا نے ہمیشہ ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا ہے اور من گھڑت الزامات لگائے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
بلوچستان اسمبلی کی سابق رکن یاسمین لہڑی کا کہنا ہے قطع نظر اس سے کہ ماہ رنگ نے کیا کہا ہے، حکومت کو گمشدہ افراد کے مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس بیان کو لے کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جبری طور پہ افراد کو گم شدہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو جبری طور پہ لاپتہ کیا جا رہا ہے اور حکومت کو یہ حقیقت مان کر ایسے افراد کے لواحقین کو گلے سے لگانا چاہیے اور اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔‘‘
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئر پرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ ماہ رنگ بلوچ کے خلاف پروپیگنڈا انتہائی شرمناک اور افسوسناک ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” حکومت یا اس کے وزیر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جبری طور پر گمشدہ افراد کے لواحقین ڈرامہ کر رہے ہیں جبکہ حکومت کے اپنے اعداد و شمار یہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں 2700 کے قریب افراد غائب ہیں۔‘‘