برلن (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) اس بل کے تحت ان غیر ملکی افراد کی ملک بدری کے عمل میں تیزی لائی جائے گی، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
وفاقی جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈس ٹاگ نے جمعرات کو ایک ایسے بل کی منظوری دی ہے، جس کے تحت ان غیر ملکی افراد کی ملک بدری کا عمل تیز کیا جا سکے گا، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
جرمن پارلیمان کا یہ اقدام ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب چانسلر اولاف شولس کی مخلوط حکومت غیر قانونی مہاجرت اور اس سے متعلقہ مسائل سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہے۔
جمعرات کو حکومت کی اتحادی گرین پارٹی کے کچھ ارکان کو چھوڑ کر اس مخلوط حکومت میں شامل تینوں جماعتوں نے اس بل کے حق میں ووٹ دیا۔ دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹس نے اس بل کو غیر موثر قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔
اس بل میں کیا ہے؟
اس بل کو ‘ریپیٹریئیشن امپروومنٹ ایکٹ’ کا نام دیا گیا ہے، جس سے مراد غیر ملکیوں کی ان کے وطن واپسی کے عمل میں بہتری لانا ہے۔
اس بل کے تحت کسی فرد کو ملک بدر کرنے سے قبل اس کی سرکاری تحویل میں رہنے کی مدت 10 دن سے بڑھا کر 28 دن کر دی جائے گی۔ اس طرح حکام کو اس شخص کو رہا کرنے سے پہلے اس کی ملک بدری سے متعلق قانونی طریقہ کار کو مکمل کرنے کے لیے زیادہ وقت مل پائے گا۔
اس بل میں حکام کے تلاشی لینے کے اختیارات میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ مثلاﹰاس کے تحت حکام مشترکہ رہائش کی جگہوں پر صرف متعلقہ شخص کا کمرہ ہی نہیں بلکہ وہاں دیگر کمروں کی بھی تلاشی لے پائیں گے۔
اس بل کے تحت انسانی اسمگلنگ میں ملوث مجرموں کی سزاؤں میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔
وزیر داخلہ کی جانب سے بل کا دفاع
جمعرات کو پارلیمان میں بحث کے دوران جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے اس بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا، “ہم یہ یقینی بنائیں گے کہ جن افراد کو یہاں رہنے کا حق نہیں ہے ان کے ہمارا ملک چھوڑنے کے عمل کو تیر کیا جائے۔” انہوں نے مزید کہا کے اس بل کے ذریعہ ان افراد کو “تیزی اور زیادہ موثر طریقے سے” ملک بدر کیا جا سکے گا۔
نینسی فیزر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جرائم میں ملوث غیر ملکی افراد کو جرمنی سے ڈی پورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ان کا ماننا ہے کہ اس بل کے بطور قانون نفاذ کے بعد نہ صرف غیر ملکیوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے میں آسانی ہوگی بلکہ اس سال بڑی تعداد میں لوگ جرمنی سے ڈی پورٹ بھی کیے جائیں گے۔
بل پر تنقید
تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس بل کی مخالفت اور اس پر کڑی تنقید کی ہے۔ سمندری راستوں سے یورپی ممالک میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے افراد کو ریسکیو کرنے والے گروپ ‘ایس او ایس ہیومینٹی’ کا اس بل کے حوالے سے کہنا ہے، “ہمارے لیے یہ بات ہولناک ہے کہ (پناہ کی تلاش میں اپنا وطن) چھوڑنے والے افراد اور ان کی انسانی بنیادوں پر مدد کرنے والے افراد کو جیل میں قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔”
اس گروپ نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ اس بل کے تحت اس کے ساتھ کام کرنے والے رضاکاروں کو بھی سزا ہو سکتی ہے۔