نیو یارک (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) اقوام متحدہ کی عہدیدار کے مطابق غزہ پٹی میں حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کو ناقابل یقین صورتحال کا سامنا ہے۔ بچوں کی پیدائش کے اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کے دوران ہر دس منٹ میں ایک بچے نے جنم لیا۔
اقوام متحدہ نے آج جمعہ کو کہا ہے کہ غزہ میں تین ماہ سے زیادہ عرصہ سے جاری جنگ کے دوران”ناقابل یقین حالات‘‘میں ہزاروں بچوں کی پیدائش ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق ذیلی ادارے یونیسف کی ترجمان ٹیس انگرام نے غزہ پٹی کے ایک حالیہ دورے سے واپسی پر زچگی کے دوران موت کے منہ میں جانے والی ماؤں اور ایک نرس کے بارے میں بتایا، جس نے ہنگامی حالات میں چھ مردہ خواتین کے سیزیرین یعنی پیٹ چاک کرنے کے آپریشن کیے تھے تاکہ ان کے بچوں کو بچایا جا سکے۔
یونیسف کے مطابق سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اب تک 20,000 بچے پیدا ہو چکے ہیں۔ انگرام نے عمان سے ویڈیو لنک کے ذریعے جنیوا میں نامہ نگاروں کو بتایا، ”یہ اس خوفناک جنگ کے دوران ہر 10 منٹ میں پیدا ہونے والا بچہ ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا،”ماں بننا جشن کا وقت ہونا چاہیے لیکن غزہ میں یہ ایک اور بچےکو جہنم میں پہنچا دینے کے مترادف ہے۔‘‘ انہوں نے اس صورتحال میں بہتری لانے کے لیے فوری بین الاقوامی کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، ”نوزائیدہ بچوں کو تکلیف میں دیکھ کر، جب کچھ ماؤں کا خون بہہ رہا ہو، ہم سب کو رات جاگتے رہنا چاہیے۔”
‘دل دہلا دینے والی’ ملاقاتیں
حماس کے زیر انتظام غزہ میں وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر سے لے کر اب تک اسرائیل کے بے دریغ فضائی اور زمینی حملوں میں کم از کم 24,762 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے تقریباً 70 فیصد خواتین، بچے اور نوعمر ہیں۔ ٹیس انگرام نے جنگ کی افراتفری میں پھنسی غزہ کی خواتین کے ساتھ “دل دہلا دینے والی” ملاقاتوں کا حال بھی بیان کیا۔
انہوں نے کہا کہ مشعیل نامی ایک خاتون اس وقت حاملہ تھی، جب اس کے گھر کو نشانہ بنایا گیا اور اس کا شوہر کئی دنوں تک ملبے کے نیچے دبا رہا، اس دوران مشعیل کے بچے نے حرکت کرنا چھوڑ دی۔
انگرام کے مطابق، “وہ (مشعیل) کہتی ہیں کہ انہیں اب یقین ہے کہ بچہ ان کے پیٹ میں مر چکا ہے۔‘‘ لیکن انگرام کے مطابق یہ خاتون ”اب بھی طبی دیکھ بحال مہیا ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔” مشعیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ سب سے بہتر ہے کہ “اس ڈراؤنے خواب میں بچہ پیدا نہ ہو۔‘‘ انگرام نے ویبڈا نامی نرس کی کہانی بھی سنائی، جس نے بتایا کہ اس نے گزشتہ آٹھ ہفتوں میں چھ مردہ خواتین کے ہنگامی حالات میں پیٹ چاک کیے تاکہ ان کے بچوں کو بچایا جاسکے۔
غیرانسانی حالات
انگرام نے کہا، “ماؤں کو پیدائش سے پہلے، اس کے دوران اور بعد میں مناسب طبی دیکھ بھال، غذائیت اور تحفظ تک رسائی میں ناقابل تصور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔” انہوں نے مزید کہا، ”غزہ کی پٹی میں حاملہ خواتین اورنوزائیدہ بچوں کی صورتحال یقین سے بالاتر ہے اور یہ سخت اور فوری اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے۔‘‘ انگرام کا کہنا تھا کہ رفح میں قائم متحدہ امارات کا ہسپتال اب غزہ میں حاملہ خواتین کی اکثریت کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتہائی نامساعد حالات اور محدود وسائل کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے اس ہسپتال کا عملہ حاملہ ماؤں کے پیٹ چاک کرنے والی جراحی کے تین گھنٹے کے اندر انہیں ڈسچارج کرنے پر مجبور ہے۔
انہوں نے مزید کہا، “یہ حالات ماؤں کو اسقاط حمل، بچوں کی قبل از پیدائش اموات، قبل از وقت زچگی کے درد، زچگی کی اموات اور جذباتی صدمے کے خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔” انہوں نے کہا کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین اور شیر خوار بچے عارضی پناہ گاہوں میں ناقص غذائیت اور پینے کے غیر محفوظ پانی کی وجہ سے “غیر انسانی” حالات میں رہ رہے ہیں۔