ایران جہازوں پر حوثی حملوں میں براہ راست ملوث ہے، امریکی وائس ایڈمرل

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے/اے پی) امریکی بحریہ کے مشرق وسطیٰ کے اعلیٰ کمانڈر نے پیر کے روز خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اسرائیل کی حماس کے خلاف جنگ کے دوران یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے بحری جہازوں پر حملوں میں ایران نمایاں طور پر براہ راست ملوث ہے۔

تاہم امریکی بحریہ کے 5ویں بحری بیڑے کے سربراہ، وائس ایڈمرل بریڈ کوپر نے یہ کہنے سے احتراز کیا کہ تہران نے حوثیوں کو بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں انفرادی حملوں کی ہدایت دی تھی۔

لیکن ان کا کہناتھا کہ اس نے خلیج فارس اور آبنائے ہرمز میں ایران سے منسلک حملوں کا دائرہ مشرق وسطیٰ کے پانیوں تک پھیلنے کی دھمکی دی تھی۔

انہوں نے اے پی سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ممکنہ طور پر تجارتی بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملے اس سے قبل کے مقابلے میں بہت نمایاں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری پر حملے کر رہے ہیں، اسی طرح بین الاقوامی ردعمل بھی آ رہا ہے۔

اقوام متحدہ میں ایران کے مشن اور یمن کے دارالحکومت صنعا میں حوثی قیادت نے اس بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

نومبر کے مہینے سے، ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں نے مصر کی نہر سویز کو ملانے والی آبی گزرگاہوں پر سفر کرنے والے جہازوں پر کم از کم 34 حملے کیے ہیں۔ یہ تجارتی گزرگاہ ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے یورپ کے درمیان توانائی اور تجارتی سامان کی نقل و حمل کا اہم راستہ ہے۔

شیعہ باغی گروپ حوثی نے 2014 سے صنعا پر قبضہ کر رکھا ہے اور 2015 سے یمن کی باغی حکومت کی حمایت کرنے والی سعودی قیادت کی فورسز سے لڑ رہا ہے۔

بحری جہازوں پر اپنے حملوں کے بارے میں حوثیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسا اسرائیل حماس جنگ میں حماس کی حمایت میں کر رہے ہیں۔ لیکن جن جہازوں کو وہ ہدف بنا رہے ہیں، ان کا تعلق یا تو اسرائیل سے کمزور ہے یا بالکل نہیں ہے۔

حالیہ دنوں میں، امریکہ نے حوثیوں کے فوجی ٹھکانوں پر سات بار فضائی حملے کیے ہیں، جن میں باغیوں کے کنٹرول کے فضائی مراکز اور مشتبہ میزائل لانچنگ سائٹس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فورسز کی بحری گشت کے نتیجے میں حوثیوں کے حملوں میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

لیکن اس کے باوجود عالمی معیشت کے لیے خطرات بدستور موجود ہیں۔ ان حملوں کے خدشات کے پیش نظر کئی جہاز ران کمپنیوں نے اپنے راستے تبدیل کر لیے ہیں اور وہ اپنے جہازوں کو نہر سوئز کی بجائے براعظم افریقہ کے گرد گھوم کر طویل راستے سے بھیج رہے ہیں۔ جس سے نہر سوئز کے ذریعے مصر کو حاصل ہونے والی آمدنی میں کمی ہو رہی ہے۔ اور معاشی بھنور میں پھنسے ہوئے مصر کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔

دوسری جانب طویل تجارتی راستہ اختیار کرنے کے سبب تجارتی سامان کی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا نتیجہ بہت سے ملکوں کے صارفین کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

پانچویں امریکی بحری بیڑے کی کمان وائس ایڈمرل کوپر نے 2021 میں سنبھالی تھی۔ یہ بیڑہ خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کے علاقے کی نگرانی پر تعینات ہے۔ یہ راستہ دنیا کے تیل کی کل تجارت کے پانچویں حصے کی گزرگاہ ہے۔

ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق پانچ عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے میں ناکامی کے بعد تہران اس علاقے میں کئی بحری جہازوں پر حملے اور کئی ایک پر قبضہ کر چکا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ اپنے انٹرویو میں امریکی بحریہ کے کمانڈر نے ایران کی پراکسیوں کے خطرے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ تہران بحیرہ احمر سے بحر ہند تک ہتھیاروں کی فراہمی میں ملوث ہے اور امریکہ نے بحری جہازوں پر حالیہ ڈرون حملوں کا الزام ایران پر لگایا ہے جن کی زد میں امریکی ملکیت کا بھی ایک جہاز آیا تھا۔

7 اکتوبر کو غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک ایران نے براہ راست اسرائیل یا امریکہ سے لڑائی میں حصہ نہیں لیا ہے۔ تاہم، کوپر نے کہا کہ ایران براہ راست جہاز رانی پر حوثی حملوں کو ہوا دے رہا ہے۔

کوپر نے کہا کہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایران واضح طور پر فنڈز فراہم کر رہا ہے۔ وہ وسائل فراہم کر رہا ہے۔ وہ تربیت فراہم کر رہا ہے۔ وہ واضح طور پر ان حملوں میں براہ راست ملوث ہے۔ یہ کوئی راز نہیں ہے۔

کوپر نے دبئی میں ڈرون کانفرنس کی سائیڈ لائنز میں ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے زیر کمان پانچویں بحری بیڑے کی خطے کے پانیوں کی نگرانی کے لیے بحریہ کی ٹاسک فورس 59 تشکیل دی ہے، جس میں ڈرون شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ڈورنز کا یہ فلیٹ مشرق وسطیٰ کے پانیوں کے تقریباً 10 ہزار مربع میل یعنی لگ بھگ 26 ہزار مربع کلومیٹر علاقے کی نگرانی کرتا ہے، جس سے منشیات اور ہتھیاروں کی مشتبہ منتقلی روکنے میں مدد ملتی ہے۔

امریکی فورسز نے رواں ماہ ایک بحری جہاز پر چھاپہ مار کر حوثیوں کو بھیجے جانے والے ایرانی ساختہ میزائل کے پرزے اور دیگر ہتھیاروں کو قبضے میں لے لیا تھا۔

انہوں نے ڈورنز کے بیڑے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ہتھیاروں کی ترسیل روکنے میں ایک کردار ادا کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حوثیوں کی جانب سے اب بھی بحری اور تجارتی جہازوں کے لیے خطرات موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ہے حوثیوں کی جانب سے بین الاقوامی جہازرانی پر حملے روکنے کا فیصلہ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں