متحدہ عرب امارات نے یمن میں سیاسی حریفوں کے قتل کیلئے مالی مدد کی، رپورٹ

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) برطانوی نشریاتی ادارے (برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن) بی بی سی کی ایک تحقیق کے مطابق متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے یمن میں سیاسی محرکات پر مبنی قتلِ عام کے لیے مالی اعانت فراہم کی ہے جس سے یمنی حکومت اور متحارب دھڑوں یعنی لڑنے والوں کے درمیان تنازعوں میں مزید اضافہ ہوا ہے جو حال ہی میں بحیرہ احمر میں بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

ایک ’وسل بلور‘ نے بی بی سی عربی کی تحقیق کرنے والی ٹیم کو بتایا کہ امریکی کرائے کے فوجیوں کی جانب سے یمن میں اماراتی افسران کو فراہم کی جانے والی انسداد دہشت گردی کی تربیت مقامی افراد کو تربیت دینے کے لیے استعمال کی گئی، جو پوشیدہ رہتے ہوئے کام کر سکتے ہیں۔

برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جنوبی یمن میں جہادی گروہوں القاعدہ اور شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ (آئی ایس) کو ختم کرنے کے امریکی فوجیوں کے بیان کردہ مقصد کے باوجود، درحقیقت متحدہ عرب امارات نے حوثی جنگجوؤں کی تحریک اور دیگر مسلح دھڑوں سے لڑنے کے لیے یمن میں قائم کردہ سکیورٹی فورس کے لیے القاعدہ کے سابق ارکان کو بھی بھرتی کیا۔

متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ہماری تحقیقات میں ان الزامات کی تردید کی ہے کہ انھوں نے دہشت گردی سے تعلق نہ رکھنے والے عام اور معصوم افراد کو قتل کیا تھا۔

یمن میں تین سال کے عرصے میں 100 سے زائد ہلاکتیں مشرق وسطیٰ کے اس غریب ترین ملک میں جاری تلخ بین الاقوامی طاقتوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر رہی ہیں۔

اس خطرناک ماحول نے یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کی مستقل بنیادوں پر واپسی کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ اس سے بلواسطہ طور پر ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کی حوصلہ افزائی میں مدد ملی ہے جو اس وقت بحری جہازوں پر حملے اور بحیرہ احمر میں تجارت میں خلل ڈالنے کی وجہ سے خبروں میں ہیں۔ حالیہ دنوں میں، واشنگٹن نے اعلان کیا ہے کہ وہ اب اس گروپ کو ’عالمی دہشت گرد‘ کے طور پر دوبارہ نامزد کرے گا۔

میں اپنے آبائی ملک یمن میں 2014 میں شروع ہونے والے تنازعے پر رپورٹنگ کر رہی ہوں۔ اس لڑائی کے نتیجے میں حکومت نے ملک کے شمال کا کنٹرول کھو دیا اور یہ علاقہ اب حوثیوں کے کنٹرول میں ہے، جو کئی سال کے تجربے کے بعد خاصے سمجھدار اور بہتر ہتھیاروں سے لیس ہو گئے ہیں۔

سنہ 2015 میں امریکہ اور برطانیہ نے سعودی عرب کی سربراہی میں زیادہ تر عرب ریاستوں کے اتحاد کی حمایت کی تھی جس میں متحدہ عرب امارات ایک اہم شراکت دار تھا۔

اتحاد نے جلاوطن یمنی حکومت کو بحال کرنے اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے مقصد سے یمن پر حملہ کیا۔

متحدہ عرب امارات کو جنوب میں سکیورٹی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور وہ خطے میں انسداد دہشت گردی میں امریکہ کا اہم اتحادی بن گیا، اسی کے ساتھ ساتھ القاعدہ طویل عرصے سے جنوب میں موجود تھی۔

یمن کا تنازعہ

* سنہ 2014 میں یمن کی اقلیتی شیعہ مسلم برادری کی ایک شاخ سے تعلق رکھنے والے حوثی جنگجوؤں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔

* صدر عبد ربہ منصور ہادی نے فروری 2015 میں صنعا میں گھر میں نظر بندی سے فرار ہونے کے بعد جنوبی شہر عدن میں ایک عارضی دارالحکومت قائم کیا تھا۔

* سعودی عرب اور آٹھ دیگر سنی عرب ریاستوں نے حوثیوں کے خلاف فضائی کارروائی شروع کی، جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ علاقائی حریف ایران کے حمایت یافتہ ہیں۔ سعودی قیادت والے اتحاد کو امریکہ، برطانیہ اور فرانس سے لاجسٹک مدد ملی۔

* یہاں تک کہ بظاہر ایک ہی طرف کے لوگوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ اگست 2019 میں جنوب میں سعودی حمایت یافتہ سرکاری افواج اور اتحادی جنوبی علیحدگی پسند تحریک، جنوبی عبوری کونسل (ایس ٹی سی) کے مابین لڑائی شروع ہو گئی، جس نے صدر ہادی پر بدانتظامی اور اسلام پسندوں کے ساتھ روابط کا الزام عائد کیا۔

* جزیرہ نما عرب میں القاعدہ (اے کیو اے پی) کے عسکریت پسندوں اور حریف شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ (آئی ایس) سے وابستہ مقامی عسکریت پسندوں نے اس افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنوب کے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے اور خاص طور پر عدن میں مہلک حملے کیے ہیں۔

* حوثیوں نے اپنے اثر و رسوخ کو بھی وسعت دی ہے۔ نومبر 2023 میں انھوں نے بحیرہ احمر میں بین الاقوامی جہاز رانی کے راستوں پر حملے شروع کیے۔

لیکن زیادہ سے زیادہ استحکام قائم کرنے کی بجائے، اس وقت رپورٹنگ کی غرض سے ہونے والے مسلسل دوروں کے دوران میں نے یمنی حکومت کے زیر کنٹرول جنوبی علاقوں میں پراسرار ٹارگٹ کلنگ کی ایک لہر دیکھی، جن کا دہشت گرد گروہوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

بین الاقوامی قانون کے مطابق بغیر کسی کارروائی کے شہریوں کے قتل کو ماورائے عدالت شمار کیا جائے گا۔

ہلاک ہونے والوں میں اکثریت اخوان المسلمون کی یمنی شاخ اصلاح کے ارکان تھے۔ یہ ایک مقبول بین الاقوامی سنی اسلامی تحریک ہے جس کی امریکہ نے کبھی بھی دہشت گرد تنظیم کے طور پر درجہ بندی نہیں کی لیکن متحدہ عرب امارات سمیت متعدد عرب ممالک میں اس پر پابندی عائد ہے جہاں اس کی سیاسی سرگرمی اور انتخابات کے لیے حمایت کو ملک کا شاہی خاندان اپنی حکمرانی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔

پہلے قاتلانہ مشن کی لیک ہونے والی ڈرون فوٹیج نے مجھے ان پراسرار ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے ایک نقطہِ آغاز فراہم کیا۔ اس کی تاریخ دسمبر 2015 تھی اور اس کا سراغ ایک نجی امریکی سکیورٹی کمپنی سپیئر آپریشنز گروپ کے ارکان سے لگایا گیا تھا۔

آخر کار میں 2020 میں لندن کے ایک ریستوراں میں فوٹیج میں دکھائے جانے والے آپریشن کے پسِ منظر میں موجود ایک شخص سے ملی۔ سابق امریکی نیوی سیل آئزک گلمور، جو بعد میں سپیئر کے چیف آپریٹنگ آفیسر بن گئے، ان متعدد امریکیوں میں سے ایک تھے جن کا کہنا ہے کہ انھیں متحدہ عرب امارات نے یمن میں قتل عام کرنے کے لیے بھرتی کیا تھا۔

انھوں نے متحدہ عرب امارات کی جانب سے سپیئر کو فراہم کی گئی ’قتل کی فہرست‘ میں شامل کسی بھی شخص کے بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا، سوائے اس کے کہ وہ اپنے پہلے مشن کے ہدف کے علاوہ، ایک یمنی رکن پارلیمنٹ انساف میو، جو 2015 سے حکومت کے عارضی دارالحکومت عدن کے جنوبی بندرگاہی شہر میں اصلاح کے رہنما ہیں۔

میں نے آئزک گلمور کا سامنا اس حقیقت پر کیا کہ اصلاح کو امریکی حکام نے کبھی بھی دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’جدید تنازعات بدقسمتی سے بہت غیر شفاف ہیں۔ ہم یمن میں یہ دیکھ رہے ہیں کہ ایک شخص کا سول لیڈر اور مذہبی رہنما دوسرے شخص کا دہشت گرد رہنما ہے۔‘

آئزک گلمور اور اس وقت یمن میں موجود سپیئر کے ایک اور ملازم ڈیل کامسٹاک نے مجھے بتایا کہ انھوں نے جو مشن انجام دیا تھا وہ 2016 میں ختم ہو گیا تھا لیکن جنوبی یمن میں قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے۔ انسانی حقوق کے گروپ ریپریو کے تفتیش کاروں کے مطابق درحقیقت ان کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے۔

ریپریو نے 2015 سے 2018 کے درمیان یمن میں ہونے والی 160 ہلاکتوں کی تحقیقات کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر واقعات 2016 سے ہوئے اور ہلاک ہونے والے 160 افراد میں سے صرف 23 کا تعلق دہشت گردی سے تھا۔ تمام افراد کو ہلاک کرنے کے لیے بھی وہی حربے استعمال کیے گئے جو سپیئر نے استعمال کیے تھے، جس میں دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد (آئی ای ڈی) کا دھماکہ کرنا اور اس کے بعد ٹارگٹڈ فائرنگ یا ہدف بنا کر گولی مارنے کے واقعات شامل تھے۔

انسانی حقوق کی وکیل ہدیٰ السراری کے مطابق یمن میں حالیہ سیاسی قتل گزشتہ ماہ ہوا تھا جس میں ایک امام کی اسی طرح جان لے لی گئی تھی۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گلمور، کامسٹاک اور سپیئر کے دو دیگر کرائے کے فوجیوں نے بتایا کہ سپیئر عدن میں متحدہ عرب امارات کے فوجی اڈے پر اماراتی افسران کو تربیت دینے میں ملوث تھا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک صحافی نے بھی ہمیں بتایا کہ انھوں نے اس طرح کی تربیت کی فوٹیج دیکھی ہے۔

کرائے کے فوجیوں نے اس کے بارے میں تفصیل سے بات نہیں کی، تاہم عدن سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر یمنی فوجی افسر، جو خود متحدہ عرب امارات کے ساتھ براہ راست کام کرتے تھے، نے مجھے مزید تفصیلات فراہم کیں۔

یمنی فوجی افسر نے مجھے بتایا کہ چونکہ کرائے کے فوجیوں کی پروفائل نے انھیں عدن میں نمایاں بنا دیا تھا اور خطرے سے دوچار کر دیا تھا، اس لیے ان کی مختصر مدت کو اماراتی افسروں کی تربیت میں تبدیل کر دیا گیا تھا، جنھوں نے ’بدلے میں مقامی یمنیوں کو نشانہ بنانے کی تربیت دی۔‘

تحقیقات کے دوران ہم نے ایک درجن سے زائد دیگر یمنی ذرائع سے بھی بات کی جنھوں نے کہا کہ ایسا ہی ہوا ہے۔ ان میں دو ایسے افراد بھی شامل تھے جنھوں نے کہا تھا کہ انھوں نے اماراتی فوجیوں کی تربیت کے بعد ایسے قتل کیے جو دہشت گردی سے متعلق نہیں تھے اور ایک شخص جس کا کہنا تھا کہ انھیں یمن کی ایک سینئر سیاسی شخصیت کے قتل کے بدلے متحدہ عرب امارات کی جیل سے رہائی کی پیشکش کی گئی تھی۔

یمنی باشندوں کو قتل و غارت کی ذمہ داری سونپنے کا مطلب یہ تھا کہ ان ہلاکتوں کا سراغ متحدہ عرب امارات میں لگانا مشکل تھا۔

سنہ 2017 تک متحدہ عرب امارات نے ایک نیم فوجی دستے کی تشکیل میں مدد کی تھی، جو متحدہ عرب امارات کی مالی اعانت سے چلنے والی سدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی) کا حصہ تھی، جو ایک سکیورٹی تنظیم ہے اور جنوبی یمن میں مسلح گروہوں کا نیٹ ورک چلاتی ہے۔

یہ فورس جنوبی یمن میں یمنی حکومت سے آزادانہ طور پر کام کرتی تھی اور صرف متحدہ عرب امارات سے احکامات لیتی تھی۔ جنگجوؤں کو صرف متحرک فرنٹ لائنوں پر لڑنے کی تربیت نہیں دی گئی تھی۔ ہمارے وسل بلور نے ہمیں بتایا کہ ایک خاص یونٹ، ایلیٹ کاؤنٹر ٹیررازم یونٹ کو قتل کرنے کی تربیت دی گئی تھی۔

وسل بلور نے ایک دستاویز بھیجی جس میں القاعدہ کے 11 سابق ارکان کے نام تھے جو اب ایس ٹی سی میں کام کر رہے ہیں، جن میں سے کچھ کی شناخت کے بارے میں ہم خود تصدیق کرنے میں کامیاب رہے۔

اپنی تفتیش کے دوران ہمیں ناصر الشیبا کا نام بھی ملا۔ کسی زمانے میں القاعدہ کے اعلیٰ عہدے پر فائز رہنے کے بعد انھیں دہشت گردی کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا تھا لیکن بعد میں انھیں رہا کر دیا گیا۔ یمنی حکومت کے ایک وزیر نے ہمیں بتایا کہ الشیبا امریکی جنگی جہاز یو ایس ایس کول پر حملے کے ایک مشتبہ ملزم تھے، جس میں اکتوبر سنہ 2000 میں 17 امریکی ملاح ہلاک ہوئے تھے۔ متعدد ذرائع نے ہمیں بتایا کہ وہ اب ایس ٹی سی کے فوجی یونٹوں میں سے ایک کے کمانڈر ہیں۔

وکیل ہدیٰ السراری متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کر رہی ہیں۔ ان کے کام کے نتیجے میں، انھیں اکثر جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی تھیں لیکن اس کی قیمت ان کے 18 سالہ بیٹے محسن نے ادا کی۔

مارچ 2019 میں محسن ایک مقامی پیٹرول پمپ گئے جہاں ان کے سینے میں گولی لگی تھی اور ایک ماہ بعد ان کی موت ہو گئی تھی۔ اُن کی موت کے بعد جب ہدیٰ کام پر واپس آئیں، تو اُن کا کہنا تھا کہ انھیں پیغامات موصول ہوئے، جن میں انھیں ان کاموں سے باز رہنے کی وارننگ دی گئی تھی اور کہا گیا کہ ’کیا ایک بیٹا کافی نہیں تھا؟ کیا تم چاہتی ہو کہ ہم دوسرے کو مار ڈالیں؟‘

بعد ازاں عدن کے پبلک پراسیکیوٹر کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ محسن کو متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ انسداد دہشت گردی یونٹ کے ایک رکن نے قتل کیا تھا لیکن حکام نے کبھی بھی استغاثہ کی پیروی نہیں کی۔

پراسیکیوٹر کے دفتر کے ارکان، جن کی شناخت ظاہر نہ کرنے اور اُن کی حفاظت کے پیشِ نظر یہاں نام نہیں لیے جا سکتے، نے ہمیں بتایا کہ وسیع پیمانے پر ہونے والے قتل نے خوف کا ماحول پیدا کر دیا، جس کا مطلب ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ قوتوں سے متعلق مقدمات میں انصاف حاصل کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔

ریپریو کو متحدہ عرب امارات کی لیک ہونے والی ایک دستاویز موصول ہوئی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ سپیئر کو 2020 میں بھی ادائیگی کی جا رہی تھی، حالانکہ یہ واضح نہیں کہ کس حیثیت میں ایسا کیا گیا۔

ہم نے سپیئر کے بانی ابراہام گولان سے پوچھا کہ کیا ان کے کرائے کے سپاہیوں نے اماراتیوں کو قتل کرنے کی تربیت دی تھی؟ لیکن انھوں نے ہمارے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔

ہم نے اپنی تحقیقات میں الزامات متحدہ عرب امارات کی حکومت کے سامنے بھی رکھے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ انھوں نے ایسے افراد کو نشانہ بنایا جن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں اور وہ سب عام شہری ہیں اور انھوں نے یمن کی حکومت اور اس کے بین الاقوامی اتحادیوں کی دعوت پر یمن میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی حمایت کی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے ان کارروائیوں کے دوران قابل اطلاق بین الاقوامی قوانین کے مطابق کام کیا۔

ہم نے امریکی محکمہ دفاع اور وزارتِ خارجہ سے سپیئر آپریشنز گروپ کے بارے میں بات کرنے کو کہا لیکن انھوں نے انکار کر دیا اور کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا، تاہم امریکی حکومت کی انٹیلیجنس ایجنسی نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ خیال کہ سی آئی اے نے اس طرح کے آپریشن پر دستخط کیے اور حامی بھری، غلط ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں