کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں سنیچر کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیرِ اہتمام جو جلسہ منعقد ہوا ہے مبصرین کے مطابق یہ کوئٹہ کی تاریخ کے بڑے جلسہ عام میں سے ایک تھا۔
اس جلسے کے لیے بہت زیادہ تیاری نہیں کی گئی تھی بلکہ اسلام آباد میں لانگ مارچ کے خاتمے کے بعد پریس کانفرنس میں اس کے انعقاد کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس جلسے کے لیے سریاب کے علاقے میں شاہوانی اسٹڈیم کا انتخاب کیا گیا تھا جو کہ لوگوں سے کچا کچ بھرا ہوا تھا۔ اس جلسہ عام کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس کے شرکا کی اکثریت نہ صرف نوجوانوں کی تھی بلکہ اس میں خواتین کی بھی ایک بہت بڑی تعداد شریک تھی۔
بعض مبصرین کی یہ رائے ہے کہ اس جلسے میں خواتین جس بڑی تعداد میں شریک تھیں ماضی میں کسی جلسے میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ جلسے میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔
لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کو سٹیج پر بٹھایا گیا تھا جن کے ہاتھوں میں مبینہ طور پر جبری گمشدگی کے شکار ان کے رشتہ داروں کی تصاویر تھیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام اس جلسے خطاب کرنے والے مقررین کی تعداد زیادہ تھی لیکن مرکزی مقرر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ تھیں۔ انھوں چار زبانوں بلوچی، براہوی، اردو اور انگریزی میں خطاب کیا۔
آج یہ صرف عوامی جلسہ نہیں ہے، یہ صرف اجتماع نہیں ہے، بلکہ یہ عوامی ریفرنڈم ہے، یہ بلوچ قوم کا فیصلہ ہے یہ بلوچ عوام کے عدالت کا فیصلہ ہے۔ بلوچ عوام آج اپنا فیصلہ کرچکی ہے، کہ وہ اپنے نسل کشی کے خلاف متحد کھڑی ہے ،اب ہم آپ کو پیغام دیں گے آپ طاقت اور ہتھیار استعمال کریں یا ہمارے… pic.twitter.com/fiuT1C1386
— Mahrang Baloch (@MahrangBaloch_) January 27, 2024
لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا وہ آج بہت خوش ہیں۔ اپنے خطاب میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہم اسلام آباد گئے اور حکمرانوں کو کہا کہ اپنی عدالتوں کو عزت دو۔
’ہم نے کہا کہ اگر جبری طورپر لاپٹہ کیئے جانے والے لوگوں پر کوئی الزام ہے تو ان کو اپنی عدالتوں میں پیش کرو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں معلوم تھا کہ اسلام آباد ہمارے ساتھ انصاف نہیں کرے گا لیکن ہم اس لیے اسلام آباد گئے تاکہ اس ریاست کی جمہوریت کو ایکسپوز کریں اور دنیا کو بتائیں کہ یہاں کتنی جمہوریت ہے۔‘
انھوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے، تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے، جو مبینہ ڈیتھ سکواڈز بنائے گئے ان کو ختم کیا جائے۔
انھوں نے بلوچستان کی بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ دن کو دعویٰ تو قوم پرستی کا کرتے ہیں لیکن رات کو حکمرانوں سے ملکر بلوچوں کے خلاف سازشوں کا حصہ بنتے ہیں۔
انھوں نے بلوچستان کی خواتین پر زور دیا کہ وہ اپنے گھروں سے نکلیں اور نہ صرف بلوچ قومی تحریک کا حصہ بنیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس تحریک کا حصہ بنائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب جو تحریک اٹھی ہے اسے ظلم اور جبر سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
لوگوں کی بڑی تعداد میں اس جلسے میں شرکت کے حوالے سے تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ آج کے اس ماحول میں جب سیاسی کارکن مایوس ہیں اس جلسے میں لوگوں کی بڑی تعداد میں نکلنا اہمیت کا حامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بلوچستان میں ایک بڑی تحریک کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔