برسلز (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) ایک بین الاقوامی کرائسز گروپ کی شائع کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آنے والی طالبان حکومت کے ساتھ اس ملک کے پڑوسی ممالک باہمی تعلقات زیادہ سے زیادہ استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔
برسلز میں قائم اس کرائسز گروپ یا تھنک ٹینک کی تازہ ترین رپورٹ میں اس بارے میں بھی جائزہ پیش کیا گیا ہے کہ زیادہ تر مغربی طاقتوں سے الگ تھلگ طالبان غیر ملکی دارالحکومتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری جان افغانستان کے پڑوسی ممالک جیسے کہ چین، پاکستان اور ایران سقوطِ کابل اور دوبارہ حکومت میں آنے والی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور مختلف شعبوں میں قریبی تعاون کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
اس کرائسز گروپ سے منسلک ایک تجزیہ کار ابراہیم باہیس کا خیال ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کریں۔ اس کا استدلال ابراہیم باہیس پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”سرحد پارعسکریت پسندی جیسے بڑھتے ہوئے مسائل، دہشت گردی اور پانی کے تنازعات وسیع البنیاد علاقائی سلامتی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ خاص طور سے ماضی کے خوفناک علاقائی عدم استحکام سے بچنے کے لیے یہ تعاون ضروری ہے۔‘‘
معاشی عنصر
ابراہیم باہیس کے مطابق سکیورٹی کے علاوہ ایک عنصر اس ضمن میں غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے اور اس کا تعلق ہے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی معیشت سے۔ ہندو کش کی اس ریاست کے پڑوسی ممالک اور اس پورے خطے کی ریاستوں کی حکومتوں کو کابل میں طالبان حکومت کے ساتھ باہمی تعلقات استوار کر کے اپنی معیشت کو فائدہ پہنچانے کا موقع مل سکتا ہے اور یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے ان ممالک کی طرف سے افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت کی طرف راہ و رسم بڑھانے کی کوششوں کی۔ معاشی بنیادوں پر تعلقات کی بہتری میں پیش رفت سے یہ ممالک افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ رابطے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں اور اس طرح ان کا کابل پر اثر و رسوخ بھی بڑھے گا۔
افغان عوام کے حق میں
برسلز میں قائم اس کرائسس گروپ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان سب کے نتائج یہ نکلیں گے کہ مغربی ممالک افغانستان اور اس خطے میں ایسی علاقائی کوششوں کی حمایت کرسکتے ہیں جن سے باہمی تعاون اور اقتصادی انضمام کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ یا کم از کم اس سے علاقائی سپورٹ کو مسدود کرنے کے امکانات سے گریز کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت طالبان حکومت ملک میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر پابندیاں عائد کرنے کی وجہ سے مغربی دنیا سے الگ تھلگ ہے۔ افغانستان میں لڑکیوں کو صرف چھٹی جماعت تک اسکول جانے کی اجازت ہے اور مزید یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ وہ چند بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے جس کے سبب طالبان حکومت کو کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔