نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) بھارتی صوبے تمل ناڈو کی ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں کہا ہے کہ مندر کوئی پکنک کی جگہ نہیں، اس لیے غیر ہندوؤں کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ عدالت نے اس کے لیے مندروں کے باہر بورڈ آویزاں کرنے کی ہدایت بھی دی۔
بھارت کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کی مدراس ہائی کورٹ نے ریاست کے ہندو مذہبی اور اوقاف کے ادارے (ایچ آر اینڈ سی ای) کے محکمے کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ تمام ہندو مندروں کے باہر ایسے بورڈ نصب کرے، جس پر یہ لکھا ہو کہ ”کسی بھی غیر ہندو کو ‘کوڈی مارم’ (یعنی احاطے میں جہاں پرچم کا ستون ہوتا ہے) سے آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔”
مدراس ہائی کورٹ کی مدورائی بنچ کی جج ایس شریمتی نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ”مندر کوئی پکنک یا سیاحتی مقام نہیں ہے۔”
حیران کن بات یہ ہے کہ عدالت نے یہ فیصلہ اس مقدمے کی سماعت کے دوران سنایا، جس میں صرف ایک مخصوص ‘ارولمیگو پلانی دھندیو تھپانی سوامی’ مندر کے لیے اس کی استدعا کی گئی تھی، تاہم عدالت نے ریاست کے تمام مندروں کے لیے یہ حکم صادر کر دیا۔
عرضی گزار کا کہنا ہے تھا کہ مذکورہ مندر میں صرف ہندوؤں کے داخلے کی اجازت ہونی چاہیے، تاہم جج موصوفہ نے ریاست کے سبھی ہندو مندروں میں غیر ہندوؤں کے داخلے پر پابندی کا فیصلہ سنایا ہے۔
عدالت نے مزید کیا کہا؟
جج شریمتی نے اپنے فیصلے میں ہندوؤں کے بنیادی حق پر زور دیا اور کہا کہ وہ بغیر کسی مداخلت کے اپنے مذہب پر عمل کر سکیں۔
عدالت نے مندر کے داخلی راستوں پر، جھنڈے والے ستون کے قریب اور دیگر نمایاں مقامات پر ایسے بورڈ لگانے کی ہدایت کی جو ‘کوڈی مارم’ سے آگے غیر ہندوؤں کے داخلے پر پابندی کی نشاندہی کرتے ہوں۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی غیر ہندو کسی مخصوص دیوتا کی زیارت کرنا چاہتا ہو، تو اسے ہندو مذہب میں اپنے عقیدے اور مندر کے رسم و رواج کی پابندی کرنے کا عہد کرنا ہو گا۔
عدالت نے کہا کہ ”مدعا علیہان کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ وہ ایسے غیر ہندوؤں کو اندر جانے کی اجازت نہ دیں، جو ہندو مذہب میں یقین نہ رکھتے ہوں۔ اگر کوئی غیر ہندو مندر میں کسی خاص دیوتا کی زیارت کرنا چاہتا ہو، تو ایسے غیر ہندو سے ایک ایسا حلف نامہ حاصل کرنا لازمی ہو گا کہ وہ اس دیوتا سے عقیدت رکھتا ہے۔ اسے ہندو مذہب کی رسوم و رواج کی پیروی کرنے کے ساتھ ہی مندر کی رسومات کی بھی پاسداری کرنی ہو گی۔ ان شرائط کے ساتھ غیر ہندو کو مندر میں جانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔”
عدالت نے عرضی گزاروں کی اس درخواست کو بھی مسترد کر دیا کہ اس حکم کو صرف پلانی مندر تک ہی محدود کر دیا جائے اور دیگر مندروں میں جو روایت چلی آ رہی ہے اسے برقرار رکھا جائے۔ تاہم عدالت نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن کو یقینی بنانے کے لیے اس ہدایت کا اطلاق تمام ہندو مندروں پر ہونا چاہیے۔
عدالت نے کہا کہ جو ”مسئلہ اٹھایا گیا ہے وہ ایک بڑا مسئلہ ہے اور یہ تمام ہندو مندروں پر لاگو ہونا چاہیے، اس لیے جواب دہندگان کی درخواست کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔”
کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ ”ریاستی حکومت، محکمہ ایچ آر اینڈ سی ای اور اس مقدمے کے فریق نیز مندر کی انتظامیہ میں شامل تمام افراد کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ ریاست کے تمام ہندو مندروں کے حوالے سے ان ہدایات پر عمل کریں۔”
جج نے میڈیا کی بعض رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بھی بتایا گیا کہ ارولمیگو برہادیشور مندر میں، ”دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے ایک گروپ نے مندر کے احاطے کو پکنک کی جگہ سمجھ کر مندر کے احاطے کے اندر نان ویجیٹیرین کھانا کھایا۔”
جج نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ رواں ماہ کے دوران ہی ایک اخبار نے اطلاع دی تھی کہ دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ایک گروپ میناکشی سندریشور مندر میں ”اپنی مقدس کتاب” کے ساتھ داخل ہوا تھا اور وہاں اپنے طرز کی عبادت کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔
بھارت میں کئی ایسے اہم مندر ہیں جہاں غیر ہندوؤں کو داخلے کی اجازت نہیں ہے، ورنہ عموماً اس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے رہی ہے اور کسی بھی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد مندر و مزارات کی زیارت کر سکتے ہیں۔
البتہ مندروں میں ذات پات کا مسئلہ قدیم رہا ہے اور بعض خاص ذات کے لوگوں کو مندر کے ایک مخصوص مقام کے آگے جانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ اس نوعیت سے مدارس ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ اپنی نوعیت میں بالکل مختلف ہے، جب خود عدالت نے اس طرح کی پابندی کا فیصلہ کیا ہو۔