نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) گزشتہ روز عدالت کے فیصلے کے بعد ہی بنارس کی تاریخی گیان واپی کی جامع مسجد میں ہندوؤں نے پوجا پاٹھ شروع کر دیا۔ مسلم فریق نے عدالت کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بھارتی ریاست اتر پردیش کے معروف شہر بنارس کی ضلعی عدالت نے بدھ کی شام کو ہندو فریق کو تاریخی گیان واپی مسجد میں پوجا کرنے کی اجازت دی تھی اور اس کے چند گھنٹے بعد ہی رات میں ہندوؤں نے مورتیوں کی پوجا کرنے کی تیاری شروع کی۔ اس طرح جمعرات کی نصف شب مسجد کے احاطے میں ہندوؤں نے اپنی مذہبی رسومات ادا کیں۔
فیصلے کے فوری بعد ہی مسجد کے آس پاس بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کو تعینات کر دیا گیا تھا تاکہ کسی بھی قسم کی ہنگامہ آرائی سے نمٹا جا سکے۔ اس تناظر میں ریاست اتر پردیش کے مختلف دیگر حساس مقامات پر بھی سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔
بابری مسجد کی طرح ہی بنارس کی گیان واپی مسجد، جو دراصل گیان واپی کی جامع مسجد ہے، کے حوالے سے بھی ہندو تنظیموں کا یہ دعوی ہے کہ مغل بادشاہ اورنگ زیب کے زمانے میں یہ مسجد ان کے ایک مندر کو مسمار کر کے تعمیر کی گئی تھی۔ وہ اس مسجد کے مقام پر مندر تعمیر کرنے کی مہم کافی عرصے سے چلا رہے ہیں اور تنازعہ عدالت میں زیر سماعت بھی ہے۔
مسلم فریق ہندوؤں کے اس دعوے کو مسترد کرتا ہے اور وہ اس کی لڑائی عدالت میں لڑ رہے ہیں، تاہم ابھی تک انہیں اس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ضلعی عدالت کے مجسٹریٹ کی مدت کار کا کل آخری دن تھا اور وہ اتنا اہم فیصلہ سنانے کے بعد اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔
گزشتہ شب مسجد میں کیا ہوا؟
بنارس کے کاشی وشوناتھ مندر کے پاس واقع گیان واپی مسجد کے علاقے میں گزشتہ رات دیر گئے اس وقت سنسنی خیز سرگرمی دیکھنے میں آئی، جب ہندو عقیدت مند پوجا کے لیے مسجد پہنچنا شروع ہو ئے۔
ایک ہندو تنظیم، راشٹریہ ہندو دل کے اراکین کو مسجد کے قریب ایک نشان پر ‘مندر’ کا لفظ کنندہ کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ اسی وقت کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی روک تھام کے لیے بھاری تعداد میں فورسز پہنچنا بھی شروع ہو گئے۔
اس معاملے میں ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنی ایک ٹویٹ میں اس بات کی تصدیق کی کہ جمعرات کی درمیانی شب مسجد کے احاطے میں ایک ہندو پجاری نے عبادت کی۔
انہوں نے لکھا، ”ایس جی نے عدالت کے احکامات پر تعمیل کی اور مورتیاں نصب کرنے کے بعد کے وی ایم ٹرسٹ کے ایک پجاری کی طرف سے شایان شان آرتی کا اہتمام ہوا۔ ان تمام دیوتاؤں کی، صبح کی منگلا آرتی، بھوگ آرتی، غروب آفتاب کی آرتی، سمیت روزانہ آرتی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔”
اطلاعات کے مطابق گیان واپی مسجد کے احاطے میں تہہ خانے کی جانب جو راستہ جاتا ہے، اسی کے داخلے پر دیوی نندی کا ایک بڑا مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔
مسجد کے تہہ خانے میں چار کمرے ہیں اور ہندوؤں کا دعوی ہے کہ ان میں سے ایک کمرہ ایک ہندو پروہت کے خاندان کے قبضے میں تھا، جو وہاں رہا کرتے تھے۔
عرضی گزار اور اس خاندان کے ایک رکن نے عدالت میں جو درخواست دی تھی، اس کے مطابق ویاس خاندان کے ایک رکن سومناتھ ویاس سن 1993 میں تہہ خانہ بند کرنے سے پہلے تک اس میں پوجا کیا کرتے تھے۔
ان کی دلیل یہ تھی کہ موروثی پجاری ہونے کے ناطے انہیں عمارت میں داخل ہونے اور وہاں عبادت کرنے کی اجازت دی جائے۔ مقامی عدالت نے اسی کیس کی سماعت کے بعد گزشتہ روز ضلعی انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ایک ہفتے کے اندر تہہ خانے کے اندر پوجا ادا کرنے انتظام کیا جائے۔
مسلم فریق نے کیا کہا؟
مسجد کمیٹی کا کہنا ہے کہ وہ بنارس کی مقامی عدالت کے حکم کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ ان کے ایک وکیل معراج الدین صدیقی کا کہنا ہے، ”یہ سب سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہو رہا ہے۔ وہی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے، جو بابری مسجد کیس میں کیا گیا تھا۔”
واضح رہے کہ ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد پر بھی ہندو فریق نے پہلے دعوی کیا تھا، پھر مسجد کے اندر مورتیاں رکھ دی گئیں اور پھر ایک مقامی عدالت نے بابری مسجد کے اندر ہندوؤں کو پوجا کرنے اجازت دے دی تھی۔ پھر ایک وقت وہ آیا جب مسجد کو منہدم کر دیا گیا اور عدالت نے مسجد کی جگہ مندر کے حوالے کر دی جہاں اب ایک شاندار رام مندر تعمیر ہو چکا ہے۔
تاریخی مساجد پر قبضے کی کوششیں
بنارس کی گیان واپی مسجد ان متعدد مساجد میں سے ایک ہے، جس پر ہندو اپنا دعوی کرتے ہیں۔ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کے بعد ایسے معاملات کوبڑی تیزی سے ہوا دی جا رہی ہے۔
آثار قدیمہ کی یہ رپورٹ ایک ماہ قبل ایک مہر بند لفافے میں عدالت کو پیش کی گئی تھی اور پہلے اسے عدالت نے منظر عام پر لانے سے منع کر دیا تھا۔ تاہم وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ایودھیا کے رام مندر کے افتتاح کے چند دن بعد ہی اس رپورٹ کو عام کر دیا گیا۔
گیان واپی مسجد کی طرح ہی متھرا کی شاہی عید گاہ کے خلاف بھی ایسی ہی کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے، جیسا کہ بابری مسجد کے خلاف کیا گیا تھا۔
برصغیر میں مغلیہ سلطنت نے شہنشاہ اورنگ زیب کے زمانے میں یہ مسجد 17ویں صدی میں ہندوؤں کے مقدس شہر وارانسی کے گیان واپی علاقے میں تعمیر کی تھی۔جس سے مسجد کا نام گیان واپی کی مسجد کے طورپر مشہور ہوگیا۔ اس شہر میں ملک بھر سے ہندو مذہب کے پیروکار اپنے پیاروں کی لاشوں کو دریائے گنگا کے کنارے جلانے یا ان کی استھیاں اس دریا میں بہانے کے لیے آتے ہیں۔
بھارت میں یہ مسجد ان متعدد اسلامی عبادت گاہوں میں سے ایک ہے، جنہیں وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کے حمایت یافتہ انتہا پسند کارکن دوبارہ سے ہندو عبادت گاہوں میں تبدیل کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے مہم چلا رہے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی ہندو اکثریت کے مرہون منت ملکی سیاست میں سب سے غالب طاقت بن چکی ہے اور اس صورتحال سے سخت گیر ہندو عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
سن 2014 میں جب سے مودی نے اقتدار سنبھالا ہے، اس کے بعد سے ملکی قانون میں ہندو بالادستی قائم کرنے کے مطالبات میں تیزی آئی ہے، جس سے بھارت میں بسنے والے 210 ملین مسلمانوں میں اپنے مستقبل کے بارے میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔