مشرقِ وسطیٰ کی فضا میں گھومتے کم خرچ مگر خطرناک ڈرونز کی دوڑ جس سے امریکہ بھی پریشان ہے

قاہرہ (ڈیلی اردو/بی بی سی/رائٹرز) حجم میں چھوٹے اور انتہائی کم خرچ والے ڈرونز فضا میں بغیر کسی ڈر کے اڑ سکتے ہیں۔ یہ کہیں سے بھی اڑ سکتے ہیں اور کسی قصبے، جنگل یہاں تک کہ بحری بیڑے پر لینڈ کر سکتے ہیں۔

یہ جاسوسی کا کام بھی کرتے ہیں، ہدف کو نشانہ بھی بنا سکتے ہیں اور زمین پر ہونے والی جنگوں کی سمت کا تعین بھی کر سکتے ہیں۔

ان کو استعمال کرنے کے لیے بہت زیادہ فوجی نفری کی ضرورت نہیں بلکہ صرف ایک ایسا شخص درکار ہے جو گراؤنڈ پر بیٹھ کر اسے کنٹرول کر سکے۔

مشرقِ وسطیٰ میں خطے کی صورتحال کو دیکھا جائے تو یہاں ہر طرف مسلح تنازعے دکھائی دیں گے۔ چاہے وہ فوجوں کے درمیان ہوں یا ان میں مسلح گروہ شامل ہوں۔ ایسے میں ڈرونز کے استعمال نے صورتحال یکسر تبدیل کر دی ہے اور تازہ پیشرفت میں اب انھوں نے امریکہ کو بھی پریشان کر دیا ہے۔

خطے میں اب ہر کسی کے پاس ڈرونز موجود ہیں کیونکہ ان پر کم لاگت آتی ہے اور یہ حجم میں چھوٹے ہوتے ہیں۔

انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل پالیسی سٹڈیز (آئی ایس پی آئی) کا اندازہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی بڑی طاقتوں نے (اسرائیل کے علاوہ) گذشتہ پانچ برسوں میں 1.5 ارب ڈالر فوجی ڈرونز پر خرچ کیے۔

خطے میں ڈرونز حاصل کرنے کی دوڑ کب شروع ہوئی؟

کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ خطے میں ڈرونز حاصل کرنے کی دوڑ عرب سپرنگ کے بعد شروع ہوئی لیکن کارنیل یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ فار پالیسی اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈاکٹر جیمز پیٹن راجرز نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ دوڑ 1970 کی دہائی کے اواخر یا 80 کی دہائی کے آغاز میں شروع ہوئی۔

اسرائیل اور ایران دونوں ہی اس وقت سے ڈرونز بنا رہے ہیں اور دونوں ممالک ریموٹ ہتھیاروں کے نظام کو اپنے قومی دفاع کا حصہ سمجھتے ہیں۔

تاہم ان کے استعمال میں ڈرامائی تبدیلی سنہ 2020 میں اس وقت آئی جب ترکی کی جانب سے ڈرونز کے ذریعے شامی مسلح افواج کو پسپا کیا گیا۔

اس آپریشن کے دوران ترکی کے بیرکتار ڈرونز نے 100 سے زیادہ بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کیا تھا۔ اس کے بعد سے ڈرونز کا استعمال خطے میں بڑے پیمانے پر ہونے لگا، اور مشرقِ وسطیٰ میں مختلف طاقتوں نے ان کی پیداوار میں اضافہ کر دیا۔

مڈل ایسٹ فاؤنڈیشن میں سٹریٹیجک ٹیکنالوجی اینڈ سائبر سکیورٹی پروگرام کے ڈائریکٹر محمد سلیمان کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ڈرونز کی پیداوار کے حوالے سے تین بڑے کھلاڑی ہیں اور ان کے علاوہ تین ابھرتے ہوئے ممالک بھی ہیں جو اس بارے میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

اسرائیل

محمد سلیمان کے مطابق اسرائیل اس دوڑ میں سب سے آگے ہے کیونکہ وہ ’سنہ 80 کی دہائی میں لبنان کی جنگ میں ڈرون استعمال کرنے والا پہلا ملک تھا۔ اسرائیل نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں امریکہ پر انحصار کیا لیکن پھر ترقی کرتے ہوئے ڈرونز کی متعدد جنریشنز اور اقسام بنائیں۔‘

اسرائیل کو ڈرون کی سب سے زیادہ پیداوار کرنے اور اسے بڑے پیمانے پر برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں رکھا جاتا ہے۔

اسرائیلی وزارت دفاع کے ایک بیان کے مطابق سنہ 2022 میں ڈرونز اسرائیل کے ہتھیاروں کی کل برآمدات کا 25 فیصد تھے۔

اسرائیلی ڈرونز میں سے ایک مشہور ڈرون ’ایتان‘ ہے جو مسلسل 36 گھنٹے تک پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ڈرون ہزار کلو گرام وزنی دھماکہ خیز میزائل اٹھانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے ہرمیس 450 اور ہرمیس 900 ڈرون کے ساتھ حملے، ٹارگٹڈ آپریشن اور مخصوص کارروائیاں بھی شروع کیں اور انھیں غزہ پر اپنی جنگوں میں استعمال کیا۔

ترکی

ترکی اس دوڑ میں دوسرے نمبر پر آتا ہے اور محمد سلیمان کی رائے میں ترکی نے مغربی ڈیزائنوں اور لائسنسوں پر انحصار کرتے ہوئے ڈرونز کی تیاری شروع کی تھی۔ ان کے مطابق ڈیزائن امریکہ کے استعمال کیے گئے لیکن پیداوار کے لیے زیادہ تر ترکی کا مقامی خام مال استعمال ہوا۔

بیرکتار ٹی بی 2 ڈرون جو 25 ہزار فٹ کی بلندی پر 24 گھنٹے ہوا میں رہ سکتا ہے ترکی کی جانب سے تیار کیا جانے والا پہلا ڈرون سمجھا جاتا ہے۔

محمد سلیمان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ڈرونز 2016 میں شام میں استعمال ہونے والا ترکی کا سب سے نمایاں ہتھیار تھا، اسی طرح 2019 میں لیبیا میں بھی جب ترکی نے جنرل خلیفہ حفتر کے خلاف پلڑہ الٹا تو انھوں نے انہی ڈرونز کا سہارا لیا۔ اس وقت جنرل حفتر کی فوجیں طرابلس پر قبضہ کرنے کے بہت قریب تھیں۔

ترکی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2022 میں بیرکتار ڈرون بنانے والی کمپنی نے 27 ممالک کے ساتھ برآمدی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی کل آمدنی 1.18 ارب ڈالر رہی ہے۔ اس ڈرون کے سب سے نمایاں خریدار یوکرین، پولینڈ، آذربائیجان، مراکش، کویت، متحدہ عرب امارات، ایتھوپیا، ترکمانستان، کرغزستان، رومانیہ اور البانیہ ہیں۔

ایران

اس دوڑ میں تیسرا کھلاڑی ایران ہے جس نے ڈرون بنانے کے لیے مقامی وسائل پر انحصار کیا کیونکہ یہ اقتصادی پابندیوں کا شکار ملک کے لیے کم مہنگے ثابت ہوتے ہیں۔

ایران نے عراق کے خلاف جنگ میں 1980 کی دہائی سے ڈرون پروگرام شروع کیا تھا۔

تہران کے ڈرونز تیار کرنے اور ان میں سے متعدد کو روس کو برآمد کرنے کے مہتواکانکشی پروگرام سے امریکہ کو شدید تحفظات رہے ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ایران کو امریکی نژاد الیکٹرانک پرزوں کی فروخت میں سہولت فراہم کرنے کے الزام میں ایران، ملائیشیا، چین اور انڈونیشیا میں موجود دس اداروں اور چار افراد کے نیٹ ورک پر پابندیاں عائد کر دی تھی۔

امریکہ نے ایران پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ وہ حوثیوں کو ڈرون فراہم کرنے میں ملوث ہے جو بحیرہ احمر میں بحری جہازوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

گذشتہ سال اکتوبر میں ایرانی وزارت دفاع نے ’Mohajer 10‘ ڈرون کی رونمائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ 24 گھنٹے 210 کلومیٹر کی رفتار سے سات ہزار میٹر کی بلندی پر پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دو ہزار کلومیٹر تک کی رینج میں آپریشنز کر سکتا ہے۔

ابھرتی ہوئے عرب ممالک

ہتھیار کے طور پر ڈرونز میں عرب ممالک کی دلچسپی بڑھی ہے جن میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور مصر سب سے نمایاں ہیں۔

تعلقات معمول پر آنے کے بعد متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے ڈرون بیڑے تیار کرنے کے لیے مشترکہ طور پر کام کیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اماراتی کمپنی ایج اور اسرائیلی ایرو سپیس انڈسٹریز کمپنی ڈرونز کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نظام تیار کر رہی ہیں۔

سعودی عرب کی جانب سے بھی ڈرونز میں خاصی دلچسپی دکھائی گیی ہے اور اس میں ایک ایسے وقت میں اضافہ ہوا ہے جب حوثیوں کی جانب سے سرکاری سعودی اعداد و شمار کے مطابق 2015 میں یمن میں جنگ کے آغاز سے لے کر 2021 تک سعودی عرب کی سٹریٹجک تنصیبات پر ڈرون حملوں سے تقریباً 851 حملے کیے گئے۔ ان سب میں استعمال ہونے والا ڈرون ایرانی ساختہ بتایا جاتا ہے۔

21 اگست 2021 کو ڈیفنس نیوز ویب سائٹ نے بتایا کہ دو سعودی کمپنیوں نے ’اسکائی گارڈ‘ ڈرون کی تیاری کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

کنگڈم نے ترک ہوائی جہاز خریدنے کے بعد ڈرون انڈسٹری کو مقامی بنانے کا سہارا لیا اور دونوں ممالک کے درمیان برسوں کی جغرافیائی سیاسی کشیدگی کے بعد ستمبر 2023 میں ایک ترک کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا۔

دو سعودی کمپنیوں نے آپریشنل تعیناتی کے لیے سکائی گارڈ یو اے وی کی تیاری جاری رکھنے کے علاوہ ترک ساختہ کارائیل ایس یو، درمیانے درجے کی اونچائی کرنے والے ڈرونز خریدے ہیں۔

تیسرا عرب کھلاڑی مصر ہے۔ مڈل ایسٹ فاؤنڈیشن میں سٹریٹجک ٹیکنالوجیز اور سائبر سکیوریٹی پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد سلیمان کا کہنا ہے کہ مصر نے ڈرون ہتھیاروں کی تیاری کے شعبے میں بڑے ممالک کے ساتھ جو شراکت داری کی ہے اور جدید ڈیزائن اور مینوفیکچرنگ لائسنس حاصل کرنے سے مینوفیکچرنگ کے لیے موزوں ماحول پیدا ہوا ہے۔

مصر کی جانب سے ایک جاسوسی ڈرون تیار کیا جات ہے جس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 260 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، اور یہ 240 کلومیٹر کی آپریٹنگ رینج کے ساتھ مسلسل 30 گھنٹے تک پرواز کر سکتا ہے۔

آئی بیکس 2023 نمائش میں مصری فوج نے Taba 1 ٹارگٹ طیارے اور Taba 2 ٹارگٹ طیارے کی نمائش کی۔

پہلا طیارہ فضائی اہداف کا پتہ لگانے، ان کی نشاندہی کرنے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی رفتار 500 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ یہ 50 منٹ تک چھ کلومیٹر کی اونچائی پر پرواز کر سکتا ہے۔

جہاں تک Taba 2 کا تعلق ہے تو اس کی رفتار 850 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہے اور یہ مسلسل آٹھ گھنٹے تک پرواز کر سکتا ہے۔

آخری مصری قسم احموس ڈرون ہے، جو ایک جاسوسی ڈرون ہے۔ اس کی رینج 240 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، زیادہ سے زیادہ رفتار 260 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اور یہ سات ہزار میٹر کی بلندی تک کام کر سکتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں آسمان اور زمین پر بھی ڈرونز کے حوالے سے کوئی خاص رکاوٹ نہیں ہے۔

خاص طور پر سخت مسلح سیاسی تنازعات کے بعد عراق، شام، یمن، لیبیا اور سوڈان کی فوجوں کی صلاحیتیں خاصی کم ہو گئی ہیں۔

مڈل ایسٹ فاؤنڈیشن میں سٹریٹجک ٹیکنالوجیز اور سائبر سکیورٹی پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد سلیمان کہتے ہیں کہ ’ابھی تک، ڈرونز کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی واضح براہ راست نظام موجود نہیں ہے اور ان میں سے زیادہ تر سسٹم تجرباتی مرحلے میں ہیں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں