بھارت اپنی بحری طاقت کو وسعت کیوں دے رہا ہے؟

نئی دہلی (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے) گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارت کی دفاعی پالیسی حریف پاکستان اور چین سے ملحق زمینی سرحدوں پر مرکوز تھی۔لیکن اب اپنے بڑھتے ہوئے عالمی عزائم کے مدنظر اس نے بین الاقوامی سمندروں میں بھی اپنی بحری طاقت کو وسعت دینا شروع کردیا ہے۔

بھارت نے بحیرہ احمر میں جہازوں کو حملوں سے بچانے کے لیے وہاں سے قریب اپنے دستے تعینات کیے ہیں ان میں انسداد قزاقی دستے بھی شامل ہیں۔

یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے بحیرہ احمر میں جہازوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات کے بعد بھارت نے نومبر میں اپنے تین گائیڈیڈ میزائل ڈسٹرائر اور جاسوس طیارے وہاں بھیجے۔

بھارت کے جنوبی بحری کمان کے سربراہ کے طورپر سن 2021 میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والے وائس ایڈمرل انل کمار چاولہ کا کہنا تھا کہ اس طرح کی تعیناتی بین الاقوامی بحری استحکام میں کسی ملک کی “فعال شراکت داری” کو نمایاں کرتی ہے۔

چاولہ نے کہا،”ہم یہ کام محض دوسروں کی بھلائی کرنے کے مقصد سے نہیں کررہے ہیں۔ دراصل جب تک آپ بحری طاقت نہیں ہوں گے اس وقت تک عالمی طاقت بننے کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔”

انہوں نے مزید کہا،”بھارت پہلے ہی ایک علاقائی طاقت ہے اور آج خود کو ایک عالمی کھلاڑی اور آنے والے دنوں میں عالمی طاقت کی پوزیشن میں لانے کی کوشش کررہا ہے۔”

چین کے خلاف بڑھتے بحری عزائم

بھارت اپنی بحری فوج کی ان تعیناتیوں کی بڑے پیمانے پر تشہیر بھی کررہا ہے جو اس کی اس خواہش کا اشارہ ہے کہ وہ دنیا کے سمندری سکیورٹی میں ایک زیادہ وسیع ذمہ داری ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ اور یہ حریف چین کے خلاف اس کے بڑھتے ہوئے بحری عزائم کا اشارہ بھی ہے۔

وائس ایڈمرل چاولہ کا کہنا تھا،”یہ چین کو ایک پیغام ہے کہ دیکھو، ہم اتنی بڑی تعداد میں فورسز تعینات کرسکتے ہے، یہ ہم سے دور ہے اور گرچہ ہم اس کے مالک نہیں ہیں لیکن ہم یہاں موجود غالباً سب سے اہم اور ذمہ دار بحری طاقت ہیں۔”

بھارت نے کم از کم چار جہازوں کی مدد کی، جن میں سے تین پر حوثیوں نے حملے کیے تھے جب کہ چوتھے پر حملے کا الزام واشنگٹن نے ایران پر لگایا تھا۔ تاہم تہران نے اس کی تردید کی تھی۔ بھارتی جہازوں نے بحری قزاقی کو روکنے کے کئی مشن بھی انجام دیے ہیں۔

امریکہ نے حوثیوں کی طرف سے ہونے والے حملوں کا متحد ہوکر جواب دینے کے لیے ایک اتحاد قائم کیا ہے لیکن بھارت فی الحال اس میں شامل نہیں ہے۔

بھارت کے سامنے کوئی اور متبادل نہیں

تھنک ٹینک کارنیگی انڈونمنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں فیلو درشنا ایم بروا کا کہنا تھا،”سمندری سلامتی بھارت کی خارجہ پالیسی کی سرگرمیوں کا اس طرح مضبوط ستون پہلے کبھی نہیں رہا ہے جیسا کہ ہم اب دیکھ رہے ہیں۔”انہوں نے کہا کہ چین اس کا ایک اہم سبب ہے۔”

دونوں پڑوسی حریف بھارت اور چین متنازع سرحد پر پہلے سے ہی فوجی تعطل سے دوچار ہیں۔ چین نے گزشتہ برسوں کے دوران بحیرہ ہند میں اپنی زبردست موجودگی قائم کی ہے۔ جہازوں کی تعداد کے لحاظ سے اس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی بحریہ ہے اور یہ بھارتی بحریہ کے مقابلے میں تین گنا سے زیادہ بڑی ہے۔

چین کے پاس بڑے ساحلی محافظوں کا ایک طاقت ور بیڑا بھی ہے، جسے اس کی میری ٹائم ملیشیا کہا جاتا ہے۔ یہ ماہی گیری جہازوں پر مشتمل ہے جو کوسٹ گارڈ کا تعاون کرتے ہیں۔

بیجنگ نے بھارت کے پڑوسیوں بشمول بنگلہ دیش، سری لنکا اور اب مالدیپ کے ساتھ مل کر بحیرہ ہند میں اپنی سرگرمیوں کو وسعت دی ہے۔

بھارتی فوج کے سابق افسر اور اسٹریٹیجک امور کے ماہر لفٹننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا کہتے ہیں،”چینی توسیع شدہ بحیرہ ہند میں زیادہ سے زیادہ بحری اڈے تلاش کررہے ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے بھارت کے پاس بھی اپنی تعمیرات جاری رکھنے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔”

مشترکہ مشقوں کے ذریعہ شراکت داری میں اضافہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی مسابقت بحری شعبے میں وسعت دینے کے بھارتی عزائم کو متحرک کررہا ہے۔ یہ چیز بھارت کو مزید جدید بحری جہاز، آبدوزیں اور ہوائی جہاز حاصل کرنے نیز ٹیکنالوجی اور انفرااسٹرکچر میں مزید سرمایہ کاری کرنے کے لیے راغب کر رہا ہے۔

بھارت کے دفاعی بجٹ میں بحریہ کا حصہ گزشتہ سال 14فیصد سے بڑھ کر 19فیصد یعنی 72.6 بلین ڈالر ہو گیا تھا۔

بھارتی بحریہ نے مشترکہ مشقوں کے ذریعہ بھی دیگر ملکوں اور اس خطے سے باہر کے ملکوں کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری قائم کی ہے۔

کارنیگی انڈومنٹ میں ‘بحیرہ ہند پہل’ کے سربراہ بروا کہتے ہیں کہ “بھارت کو، نہ صرف بحرانی صورت حال کا جواب دینے کے سلسلے میں بلکہ ہند بحرالکاہل میں اپنی جیو پالیٹیکل اور اسٹریٹیجک ترجیحات کے حصول کو آگے بڑھانے کے لیے بھی،سمندر پر مبنی اسٹریٹیجک سوچ کی ضرورت ہے۔”

بھارت، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل ایک اسٹریٹیجک اتحاد ہے جسے کواڈ کہا جاتا ہے۔ کواڈ نے بارہا چین پر الزام لگایا ہے کہ وہ جنوب بحیرہ چین میں اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کررہا ہے۔

‘بھارت چین کا مدمقابل نہیں’

بھارتی بحریہ کے منصوبہ سازوں کے لیے جنوب بحیرہ چین اب بھی تشویش کا سب سے اہم سبب ہے۔ بھارت کے کارگو کا تقریباً 60 فیصد اسی سے ہوکر گرزتا ہے، جب کہ چین اسے اپنا علاقہ قرار دیتا ہے۔

چاولہ کا کہنا تھا کہ بھارت کے پاس فی الحال جنوب بحیرہ چین میں اپنی طاقت کو ثابت کرنے کی قوت نہیں ہے کیونکہ وہاں وسیع چینی سمندری اثاثے موجود ہیں۔

چاولہ کہتے ہیں،”سچ کہوں تو اگر جنگ کی بات آتی ہے تو بھارت کے پاس واقعی اتنی صلاحیت نہیں ہے اور کواڈ کو اصولی طور پر اس میں مدد کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ کواڈ نیٹو کی طرح کوئی فوجی اتحاد نہیں ہے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں