شام، عراق میں فضائی کارروائیاں: امریکہ کے جواب میں ’تاخیر‘ کے بعد ایران کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے؟

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) گذشتہ اتوار اردن میں اپنے فوجی اڈے پر حملے کے جواب میں امریکہ نے شام اور عراق میں 85 اہداف پر فضائی کارروائیاں کی ہیں۔

عراق کا کہنا ہے کہ امریکی فضائی حملوں کے خطے کے لیے تباہ کن نتائج ہوں گے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ امریکی حملوں میں 16 معصوم شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

تاہم امریکہ نے کہا کہ اس کے فضائی حملوں میں عراق اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کو نشانہ بنایا گیا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعے کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ہمارا جواب آج شروع ہوگا۔ یہ جواب ہمارے چُنے ہوئے وقت اور مقامات پر دیا جائے گا۔‘

خیال رہے کہ وائٹ ہاؤس نے اس ڈرون حملے کا الزام ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروہوں پر عائد کیا تھا جس میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔

دوسری طرف ایران نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ جنگ ​​نہیں چاہتا لیکن ساتھ ہی اس نے خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر یا مشرق وسطیٰ میں ایرانی مفادات کے خلاف کسی بھی حملے کا بھرپور جواب دے گا۔

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے جمعے کے روز اس موقف پر تاکید کی۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم کوئی جنگ شروع نہیں کریں گے، لیکن اگر کوئی ملک یا ظالم طاقت جارحیت کی کوشش کرے گی تو ایران بھرپور جواب دے گا۔‘

ایرانی صدر کا بیان ان اطلاعات کے بعد سامنے آیا کہ امریکہ شام اور عراق میں ایرانی اہداف پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے حماس کے حملے کے جواب میں غزہ میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کرنے کے بعد سے یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی امریکی فوجی ہلاک ہوا جس نے خطے کو ایک وسیع تر تنازعے کے قریب پہنچا دیا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اس حملے کا ذمہ دار ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کو ٹھرایا تھا۔ جمعرات کو امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ حملے میں استعمال ہونے والا ڈرون اصل میں ایرانی تھا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ سات اکتوبر سے خطے میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا نے 160 بار امریکی اڈوں اور فورسز کو نشانہ بنایا ہے مگر ان میں سے بیشتر حملے بے اثر رہے۔

ایران نے بارہا ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ علاقے میں موجود عسکریت پسندوں کو تہران سے ان کے احکامات موصول نہیں ہوتے۔

بالآخر، ہفتے کے روز امریکہ نے شام اور عراق میں عسکریت پسندوں کے 85 کے قریب ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

اس سے قبل، امریکی وزیر دفاع نے کہا تھا کہ امریکی حملہ کثیرجہتی ہوگا جو کئی دنوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ اس حملے میں عراق اور شام میں ایرانی مفادات اور ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

لیکن امریکی حکام کسی بھی ایسی کارروائی سے گریز کرنا چاہ رہے ہیں جس سے خطے میں جنگ کے پھیلنے کا خطرہ ہو۔

امریکی انتظامیہ ریپبلکن پارٹی کی جانب سے دباؤ میں ہے کہ وہ ایران کے اندر اہداف کو نشانہ۔ اس حملے کے لیے وہ دلیل دیتے ہیں کہ مستقبل میں امریکی مفادات پر حملوں کو روکنے کے لیے ایران کے خلاف فیصلہ کن ردعمل ضروری ہے۔

لیکن بائیڈن انتظامیہ نے ایرانی سرزمین پر اہداف پر حملے نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اور امریکہ کی جانب سے یہ تہران کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ حالات قابو سے باہر ہوں۔

یہ واضح نہیں ہے کہ ایران ان حملوں سے نمٹنے کے لیے کیا تیاری کر رہا ہے، لیکن اطلاعات ہیں کہ اس نے پورے خطے سے اپنے بہت سے اہم فوجی اہلکاروں کو واپس بلا لیا ہے۔

ماضی میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں ایران اور امریکہ نے حملوں سے پہلے ایک دوسرے کو آگاہ کیا تا کہ جانی نقصان نہ ہو۔

تاہم پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر حسین سلامی نے حال ہی میں امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک پہلے بھی ایک دوسرے کو میدانِ جنگ میں آزما چکے ہیں اور امریکہ کو ایران سے کوئی خطرہ لاحق نہیں۔

انھوں نے امریکہ کو خبردار کیا اگرچہ ایران جنگ کا خواہاں نہیں لیکن وہ اپنے لیے کھڑے ہونے ڈرتے نہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ایران کئی طریقوں سے خطے میں بڑھتی کشیدگی کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

القدس فورس آئی آر جی سی کا حصہ ہیں۔ اس کے کمانڈر اسماعیل قاانی نے حالیہ دنوں میں بغداد دورہ کیا ے۔

انھوں نے عراق میں اپنے گروہوں سے کہا ہے کہ وہ امریکی افواج پر حملوں کو روکیں اور ایک اہم گروپ نے اس پر اتفاق بھی کر لیا ہے۔

حزب اللہ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ایران کی درخواست پر امریکی افواج کو نشانہ بنانا بند کر دیا ہے۔ اس گروپ پر اتوار کو امریکی اڈے پر حملے میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔

لیکن دوسرے گروپوں نے واضح کیا ہے کہ وہ امریکی افواج کو خطے سے نکالنے کے اپنے ہدف کے حصول تک حملے جاری رکھیں گے۔

ان بیانات سے لگتا ہے کہ ایران ان گروہوں کو مالی اور عسکری امداد فراہم کرنے کے باوجود ان پر مکمل اثر و رسوخ نہیں رکھتا۔

لیکن اس سے امریکی ارادوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا: ‘ہم ہمیشہ لوگوں کی باتوں کو سنتے ہیں اور پھر ان کے فعل کو دیکھتے ہیں۔‘

بظاہر ایران وسیع تر علاقائی جنگ میں ملوث ہونے سے بچنے کا خواہاں ہے۔ لیکن اس کے لیے کشیدگی سے دور رہنا مشکل ہے۔

تاہم، ایران کے ردعمل کا دارومدار ایرانی رہبر اعلٰی آیت اللہ علی خامنی پر ہے۔ پاسداران انقلاب کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں ایران کی پالیسیاں وہی مرتب کرتے ہیں۔ لیکن اب تک وہ اس معاملے پر خاموش ہیں۔

وہ جانتے ہیں کہ ایران اور امریکہ کا برابر کا مقابلہ نہیں، لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پاسدارانِ انقلاب امریکہ کے لیے خطے میں پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔

امریکہ کے جواب میں تاخیر کیوں ہوئی؟

بائیڈن انتظامیہ امریکہ کے جواب میں تاخیر پر تنقید اور دباؤ کی زد میں رہی ہے۔

تاہم خارجہ پالیسی کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس تاخیر نے ایران کو یہ مہلت دی کہ وہ اپنے دستے واپس بلا سکے اور امریکہ و ایران کے درمیان مزید تناؤ سے بچ سکے۔

مشرق وسطی کے سابق امریکی ڈیفنس سیکریٹری مک ملرائے نے کہا کہ ’اس سے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کی صلاحیت کم ہوئی اور کشیدگی میں مزید اضافے سے بچا گیا۔۔۔ یہ ضروری نہیں کہ اس سے مستقبل میں (ڈرون) حملوں سے بچا جا سکے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس کا اصل فائدہ یہ ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان براہ راست جنگ کے خدشات ختم ہوں گے۔

عرب گلف سٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف واشنگٹن کے فیلو حسین ایبش کا کہنا ہے کہ تاخیر سے بظاہر امریکہ نے یہ عندیہ دیا کہ وہ ایران کے اندر حملہ نہیں کرے گا۔

ملرائے نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ممکن ہے کہ امریکہ نے تنصیبات پر حملے سے قبل پاسداران انقلاب کو اپنے دستے نکالنے کی مہلت دی۔

تجزیہ کار بریڈلی بومین نے کہا کہ امریکہ کی حکمت عملی سے ’دشمن کو نقصان پہنچا جس سے وہ ہماری فورسز پر مزید حملے نہیں کرے گا۔ مگر اتنا نقصان نہیں کہ کشیدگی میں بے پناہ اضافہ ہو۔ لہذا علاقائی جنگ کے خدشات تھم گئے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں