نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو/اے ایف پی) وراناسی کی ایک مسجد میں ہندوؤں نے پوجا شروع کر دی ہے، مگر کیا یہاں مسجد باقی رہے گی؟
صدیوں پرانے مسلم تاریخی مقامات پر ہندوؤں کے دعووں میں سے ایک معاملہ دریائے گنگا پر واقع وراناسی کا مقام بھی ہے۔ یہاں قائم ایک قدیمی مسجد کے بارے میں ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ پہلے یہاں مندر ہوا کرتا تھا، جس کی جگہ مسجد بنائی گئی تھی۔
وراناسی بھارت میں ہندوؤں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ اسی مقام پر ہندو مُردوں کی راکھ کو گنگا جل کے سپرد کرتے ہیں۔ گزشتہ ماہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں رام جنم بھومی مندر کے افتتاح کے بعد وراناسی سے متعلق بحث اور کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
سن 1992 میں ہندو شدت پسندوں نے سولہویں صدی میں تعمیر کی گئی بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا، جب کہ بعد میں بھارتی سپریم کورٹ نے اس مقام پر مندر کی تعمیر کا فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلے کے تحت بابری مسجد کے مقام پر مندر تعمیر کیا گیا ہے۔ عدالتی فیصلے میں مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے علیحدہ سے جگہ دینے کا کہا گیا تھا۔
دوسری جانب وراناسی کی مسجد کے نگران محمد یاسین کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ یہ جگہ اب مزید کتنے عرصے تک مسلمانوں کے پاس رہے گی۔ ”ہمیں مسلسل ظلم اور استحصال کا سامنا ہے۔ یہ کسی ایک مسجد کا معاملہ نہیں ہے۔ ان کا نعرہ ہے کہ یہاں کوئی ایک بھی مسجد یا گنبد باقی نہیں رہنے دیا جائے گا۔‘‘
محمد یاسین وراناسی میں قائم تاریخی گیانواپی مسجدکے جنرل سیکرٹری ہیں۔ وراناسی شہر کے مرکز میں یہ مسلمانوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہے۔ ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجد مغل دور میں بھگوان شیو کی ایک عبادت گاہ پر تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد میں گزشتہ کئی برسوں سے مسلمان پولیس کی نگرانی میں نماز ادا کرتے ہیں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ پیش آ جائے۔ مگر گزشتہ ہفتے اس کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہو گیا، جب ایک بھارتی عدالت نے اس مسجد کے تہہ خانے کو ہندو عبادت گزاروں کے لیے کھولنے کا فیصلہ سنایا۔ اس سے اگلے روز ہندوؤں نے اس مسجد میں اپنی عبادت کی جب کہ اس عدالتی فیصلے کو کالعدم قرار دینے سے متعلق مسلمانوں کی اپیل کو اعلیٰ بھارتی عدالت نے سننے سے انکار کر دیا۔
محمد یاسین کے مطابق اس عدالتی فیصلے اور اس کے فوراﹰ بعد ہندوؤں کے اس مقام پر پوجا کرنے کو حکام کی آشیرباد حاصل تھی، جب کہ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ حکومت ہندوؤں کے اس دعوے کی تائید کرتی ہے۔ یاسین کا مزید کہنا تھا، ”اب وہ عدالتوں اور نظام کے ذریعے ہم تک پہنچ رہے ہیں۔ ایک مسلمان کے طور پر مجھے جو دکھ پہنچا، وہ ایسا تھا کہ میں ساری رات نہیں سو سکا۔‘‘
اسی کشیدگی میں اس بار نماز جمعہ کے وقت مسجد میں قریب ڈھائی ہزار نمازی پہنچے۔ یہ تعداد عام حالات کے مقابلے میں دگنی تھی جب کہ ایسے میں درجنوں پولیس اہلکار بھی موجود تھے اور اس دوران مسجد کے باہر ہندو بھگوان شیو کے نعرے لگا رہے تھے۔