لندن (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے) برطانیہ کے سرکاری تخمینوں کے مطابق ملک میں سن دو ہزار چھتیس تک امیگریشن کے ذریعے آبادی میں 6 ملین سے زائد کے اضافے کی امید کی جا رہی ہے۔ اس سے وزیر اعظم رشی سوناک کی آئندہ انتخابی مہم پر شدید دباؤ پڑ سکتا ہے۔
2021ء کے وسط میں برطانیہ کی آبادی 67 ملین تھی۔ 2036ء کے وسط میں یہ بڑھ کر 73.7 ملین ہو جائے گی۔ برطانیہ کے دفتر برائے قومی شماریات (ONS) کے مطابق اس یورپی ملک میں آبادی میں اس اضافے کی تقریباً مکمل وجہ امیگریشن یا ہجرت ہو گی۔
برطانیہ میں ہجرت ایک غالب سیاسی مسئلہ بن چُکا ہے۔ یہ اہم معاشرتی موضوع اس سال کے آخر میں برطانیہ میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک نمایاں کردار ادا کرے گا۔ اس ملک میں رائے عامہ کے جائزوں کی بنیاد پر کی جانے والی پیش گوئی کے مطابق رشی سوناک کی حکمران کنزرویٹیو پارٹی اپنی طاقت کھو دے گی۔
دفتر برائے قومی شماریات (ONS) کی طرف سے آئندہ 15 سالوں میں برطانیہ کی آبادی میں بڑے اضافے کے بارے میں لگائے گئے تخمینے سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ اس اثناء میں ملک میں اموات سے کہیں زیادہ پیدائش کی شرح رہے گی۔ گزشتہ برس نومبر میں شائع کی گئی اعداد وشمار میں 2022 ء میں ہونے والی سالانہ ہجرت 7 لاکھ 75 ہزار کے ساتھ ایک نیا ریکارڈ سامنے آیا اور تب سے اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ (ONS) کی پیش گوئی کے مطابق 2028ء سے ہر سال 3 لاکھ 15 ہزار افراد کے ہجرت کر کے برطانیہ آنے کی قوی اُمید ہے۔
مہاجرت کے قوانین میں سختی
وزیر اعظم رشی سوناک کی حکومت نے گزشتہ ماہ برطانیہ کے لیے ویزے کے قوانین سخت تر کرنے کا اعلان کیا۔ ان میں اعلیٰ تنخواہوں کو محدود کرنا اور غیر ملکی کارکنوں کی فیملی کو برطانیہ لانے پر پابندی جیسے اقدامات شامل ہیں جن کا مقصد برطانیہ آنے والے امیگرینٹس کی تعداد کو کم کرنا ہے۔ تاہم اس اقدام کو کاروباری اداروں اور ٹریڈ یونینوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان اداروں نے کہا کہ یہ نجی شعبے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ خاص طور سے برطانیہ کے پرائیویٹ سیکٹر اور سرکاری ہیلتھ سروس دونوں ہی افرادی قوت اور مزدوروں کی شدید قلت سے دوچار ہیں۔
حال ہی میں برطاینہ کے ہوم آفس نے سخت امیگیریشن قوانین کے نفاذ کا ٹائم ٹیبل تیار کر لیا ہے۔ اس کے مطابق رواں سال گزشتہ برس کے مقابلے میں 3 لاکھ تارکین وطن کم آئیں گے۔ 19 فروری سے کیئر ورکرز کے حقوق ختم کرنے کے لیے نئے قوانین جاری کر دیے جائیں گے اور یہ قانون 11 مارچ سے لاگو ہو جائے گا۔ اس طرح ورکرز اپنے ڈیپنڈنٹ رشتہ داروں یا جو ان پر منحصر فیملی ممبرز ہیں ان کا بوجھ اُٹھانے کے لیے انہیں برطانیہ نہیں لا سکیں گے۔
اس کے علاوہ ہنر مند کارکنوں کی کم از کم آمدنی کی حد کو بڑھانے کے لیے 48 فیصد کی حد مقرر کی گئی ہے۔ یہ قانون 14 مارچ سے جاری ہو گا اور اس کا نفاذ اپریل میں ہوگا۔ برطانیہ کے ہوم سکریٹری جیمز کلیورلی کے بقول، ”یہ ہجرت میں کمی لانے کے لیے ایک ٹھوس، مضبوط لیکن منصفانہ نقطہ نظر ہے۔‘‘