یمن میں حوثی ملیشیا کے ٹھکانوں پر مزید امریکی حملے

واشنگٹن (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے پی/ڈی پی اے) امریکی سینٹرل کمان نے کہا ہے کہ اس نے اتوار کو بھی یمن میں حوثیوں کے خلاف مزید حملے کیے ہیں۔ تازہ ترین فوجی حملے امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے حوثی اہداف پر کیے جانے والے حملوں کے ایک روز بعد ہوئے ہیں۔

امریکی سینٹرل کمان (سینٹ کوم) نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اتوار کے روز ایک بیان میں کہا کہ یمن میں حوثی میزائلوں کے خلاف مزید حملے کیے گئے ہیں۔ سینٹ کوم نے کہا کہ امریکی افواج نے زمین سے حملہ کرنے والے کروز میزائل اور چار جہاز شکن میزائلوں کو تباہ کردیا جو “بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملے کرنے کے لیے تیار تھے۔”

یہ تازہ ترین فوجی کارروائی حوثیوں کے ٹھکانوں پر امریکہ اور برطانیہ کے حملے کے ایک دن بعد ہوئی ہے۔ اتوار کے روز کی جانے والی کارروائی میں حوثیوں کے کم از کم 36 اہداف کو نشا نہ بنایا گیا۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ تمام کارروائیاں بحیرہ احمر میں فوجی اور تجارتی بحری جہازوں پر ایران کے حمایت یافتہ حوثی گروپ کے مسلسل حملوں کے بعد ہوئی ہیں۔

حوثیوں کے حملوں نے بڑی شپنگ کمپنیوں کو اس آبی گزرگاہ سے گریز کرنے پر مجبور کردیا ہے، جس کی وجہ سے بین الاقوامی تجارت متاثر ہو رہی ہے۔

گزشتہ ہفتے اردن میں ایک فوجی اڈے پر دشمن کے ڈرون حملے میں امریکہ کے تین فوجی مارے گئے ہیں۔ امریکہ نے اس حملے کے لیے تہران پر انگلی اٹھائی تھی اور کہا تھا کہ یہ ڈرون ایرانی ساختہ تھے۔

ایران نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔ تاہم اسلامی مزاحمت نامی تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے تہران کی حمایت حاصل ہے۔

‘مزید حملے کیے جائیں گے’

خیال رہے کہ وائٹ ہاوس نے خبر دار کیا تھا کہ عراق اور شام میں ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کے اہداف پر اس کے فضائی حملے”صرف آغاز ہیں، اختتام نہیں۔”

امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اتوار کے روز امریکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ “مزید اقدامات ہوں گے۔”

سلیوان نے کہا کہ واشنگٹن کا خیال ہے کہ “ان حملوں سے حوثی ملیشیا کی صلاحیتوں کو کم کرنے میں اچھا اثر پڑا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ “امریکہ کا مشرق وسطیٰ میں کھلے عام فوجی مہم چلانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن جو بھی گروپ سامنے آئے گا اس سے ہر طرح سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔”

امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے تاہم یہ بتانے سے انکار کیا کہ آیا ان حملوں کے تحت ایران کے اندر بھی حملے شامل ہیں۔

امریکی حملوں کی مذمت

قبل ازیں امریکی صدر جو بائیڈن نے اتوار کے روز کانگریس کو تحریر کردہ ایک خط میں، جو کسی فوجی کارروائی کے 48 گھنٹے کے اندر امریکی قانون کے تحت لکھنا ضروری ہے، کہا کہ جمعے کے روز کیے جانے والے حملے ایران کی مسلح افواج پاسداران انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) اور اس سے وابستہ ملیشیا گروپوں کے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے کیے گئے تھے۔

بائیڈن نے کہا کہ ان حملوں میں “کمان اور کنٹرول، ہتھیاروں کے ذخائر، لاجسٹک سپورٹ اور دیگر اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔”

انہوں نے دعویٰ کہا کہ ان حملوں کا مقصد حوثی ملیشیا کو مزید حملوں سے روکنا ہے اور کارروائی کرتے وقت شہری ہلاکتوں کو محدود رکھنے کے اقدامات کیے گئے تھے۔

حوثی ملیشیا کے ترجمان یحیٰ ساری نے ان حملوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایکس پر لکھا،” یہ حملے ہمیں غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام کی اخلاقی، مذہبی اور انسانی حمایت سے باز نہیں رکھ سکتے اور ان حملوں کا جواب دیا جائے گا۔”

عراق اور شام کی حکومتوں سمیت خطے کے دیگر ملکوں نے بھی امریکی حملوں کی مذمت کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں