تل ابیب (اے ایف پی/اے پی/ڈی ڈبلیو) امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اسرائیلی جنگی کابینہ میں موجود اعتدال پسندوں کے ساتھ غزہ میں اسراءیلی یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
Prime Minister Benjamin Netanyahu met today with US Secretary of State Antony Blinken, at the Prime Minister's Office in Jerusalem.
PM Netanyahu and @SecBlinken first held a lengthy, in-depth private meeting, and are currently holding an expanded meetinghttps://t.co/lav5U0u7bi pic.twitter.com/wsAIBYRGIt
— Prime Minister of Israel (@IsraeliPM) February 7, 2024
یہ بات چیت اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی طرف سے حماس کے مطالبات مسترد کیے جانے کے ایک روز بعد ہوئی۔
In my seventh trip to Israel since the horrific Hamas attacks of October 7th, I met with officials in Jerusalem and Tel Aviv to discuss the latest on the ground, my travels and recent meetings this week with regional leaders, and the urgency of the work that lies ahead of us. pic.twitter.com/datNMHllC0
— Secretary Antony Blinken (@SecBlinken) February 8, 2024
بلنکن نے تل ابیب میں دو سابق فوجی سربراہوں بینی گینٹس اور گیبی آئزن کوٹ سے ملاقات کی۔ یہ دونوں سات اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد نیتن یاہو کی جنگی کابینہ میں شامل ہوئے تھے۔
اس ملاقات کے آغاز پر بلنکن نے کہا کہ ان مذاکرات میں ”یرغمالیوں اور اس خواہش پر توجہ مرکوز کی جائے گی کہ ہم دونوں (امریکہ اور اسرائیل) ان کی ان کے اہل خانہ میں واپسی دیکھیں۔‘‘
اس موقع پر گینٹس نے بلنکن کو بتایا، ”یقینی طور پر سب سے اہم مسئلہ یرغمالیوں کو واپس لانے کے طریقے تلاش کرنا ہے۔‘‘ گینٹس کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر بہت سے مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل میں کیے جانے والے دہشت گردانہ حملے اور اس کے جواب میں اسرائیلی عسکری کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے اس وقت پانچویں مرتبہ اس خطے کا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ یرغمالیوں کی رہائی کے معاملے پر حماس کا ردعمل لے کر اسرائیل پہنچے، جو انہیں قطر کے ذریعے موصول ہوا تھا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بدھ سات فروری کو اس معاہدے کی شرط کے طور پر جنگ بندی کے حماس کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ جنوبی غزہ کے گنجان آباد شہر رفح تک فوجی کارروائیوں کو وسعت دے دیں گے۔
تاہم بلنکن کا کہنا تھا کہ انہیں پھر بھی اس معاہدے میں بہتری لانے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کی گنجائش نظر آتی ہے۔
اسرائیل کی سرکاری معلومات کی بنیاد پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کی طرف سے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر کو اسرائیل کے اندر حماس کے دہشت گردانہ حملے میں تقریباﹰ 1,160 افراد ہلاک ہوئے تھے ، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔
حماس کے عسکریت پسند تقریباﹰ 250 افراد کو یرغمال بنا کر غزہبھی لے گئے تھے۔ ان میں سے قریب 100 یرغمالیوں کو ایک عبوری فائر بندی معاہدے کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں اب بھی 132 افراد موجود ہیں، جبکہ 29 کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
7 اکتوبر کے بعد سے اسرائیل کی طرف سے غزہ پٹی میں عسکری کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں اب تک کم از کم 27,708 فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔