مشرق وسطیٰ کی سب سے خطرناک سرحد کی حفاظت پر مامور جنگجو: ’ہم چاروں طرف سے گھرے ہوئے ہیں‘

تل ابیب (ڈیلی اردو/بی بی سی) یہ اسرائیل کے انتہائی شمال میں واقع قصبے ’میٹولا‘ جانے والا ایک سنسان راستہ ہے جو تین اطراف سے لبنان کی سرزمین سے گھرا ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس راستے کو لبنان کے سب سے طاقتور مسلح گروپ حزب اللہ نے تین جانب سے گھیر رکھا ہے۔

میٹولا کی سرحد پر قائم چوکی پر موجود تمام سپاہی مقامی ہیں جن میں سے زیادہ تر درمیانی عمر کے ریزروسٹ یعنی آزاد فوجی ہیں اور انھیں سرحد کے دوسری طرف کی فورسز کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔

ایک دھند بھری رات میں اُن میں سے ایک شخص کمپاس (قطب نما) پر اپنی انگلی گھما کر سرحد اور حزب اللہ کی پوزیشنوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مغرب میں ایک چوتھائی میل کے فاصلے پر، شمال میں نصف میل اور مشرق میں بھی تقریبا نصف میل، یعنی ہم 300 ڈگری تک حزب اللہ سے گھرے ہوئے ہیں۔‘ اور باقی 60 ڈگری کا رقبہ، اُن کے مطابق، اسرائیل کے باقی حصوں تک نیچے پہنچتا ہے جس میں کھڑی سڑک بھی شامل ہے۔

سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی غزہ جنگ میں تقریباً 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے اور ان میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس کے بعد ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 27,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں، اور لگاتار ہونے والی بمباری کے باعث غزہ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

اس کے بعد اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان سرحدی تنازعوں میں مسلسل شدت آتی گئی تاہم تمام فریقین جانتے ہیں کہ اگر یہ تنازع شدید جنگ میں تبدیل ہو جاتا ہے تو حالات کس قدر خراب ہو جائیں گے۔ اور یہ بات میٹولا کی سرحد پر پہرہ دینے والوں پر پوری طرح واضح ہے۔

اسرائیلی ریزروسٹ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’ہاں، یہ یقینی طور پر بڑی جنگ میں بدل سکتا ہے اور حزب اللہ کے ساتھ بڑی جنگ کا مطلب حماس کے ساتھ جنگ کرنے جیسا نہیں ہے، وہ ایک حقیقی فوج ہے، بہت تربیت یافتہ، بہت زیادہ سازوسامان سے لیس اور ان کے پاس کافی تجربہ ہے، شام میں جنگ کا حقیقی تجربہ۔‘

حزب اللہ نے شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے لیے لڑتے ہوئے جنگ میں شرکت کی تھی۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا اپنے موجودہ مشرق وسطیٰ کے دورے پر میٹولا کا دورہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن واشنگٹن سے مشرق وسطی کی طویل پرواز اور مشرق وسطیٰ کے مختلف دارالحکومتوں کے درمیان سفر سے اب وہ بخوبی واقف ہوں گے۔ وہ سات اکتوبر کے بعد پانچویں بار خطے کا دورہ کر رہے ہیں۔

لیکن انٹونی بلنکن نے مشرق وسطیٰ میں بحران کی شدت کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جنوری کے آخر میں نیٹو کے سیکریٹری جنرل کے ساتھ کھڑے ہو کر انھوں نے کہا کہ ’یہ ناقابل یقین حد تک غیر مستحکم ہے۔۔۔ میں کہوں گا کہ ہم نے کم از کم 1973 کے بعد اور کچھ حد تک اس سے پہلے بھی اس خطے میں اتنی خطرناک صورتحال نہیں دیکھی ہے جس کا ہمیں ابھی سامنا ہے۔‘

یہ اپنے آپ میں بڑا موازنہ ہے۔

یاد رہے کہ سنہ 1973 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ سپر پاورز کے تصادم اور سرد جنگ میں بدل گئی تھی۔ واٹر گیٹ سکینڈل میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کے غرق ہو جانے کے بعد ان کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے امریکی سٹریٹجک فورسز کو امن کے وقت کے ڈیفکون 3 انتباہ کی اعلیٰ ترین سطح پر جانے کا حکم دیا تھا۔ انھوں نے یہ حکم اس رپورٹ کے بعد دیا تھا جب امریکہ کو یہ پتا چلا کہ سویت روس جوہری ہتھیاروں کو مشرق وسطیٰ میں منتقل کر رہا ہے۔

اس کے تقریبا نصف صدی بعد اب مسٹر بلنکن بول رہے ہیں کیونکہ ایران کی تربیت یافتہ ملیشیاؤں نے اردن میں ایک اڈے پر حملہ کر کے تین امریکی فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ تب سے امریکہ نے برطانیہ کی طرف سے یمن میں مدد کے ساتھ جوابی فضائی حملوں کی مستقل مہم شروع کر دی ہے۔ امریکیوں کو امید ہے کہ انھوں نے معاملات کو درست کرنے کے لیے اپنا ردعمل دکھایا ہے، انھیں مزید خراب نہیں کیا ہے لیکن یہ بات یقینی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ ایسا ہی ہے۔

واشنگٹن ڈی سی میں صدر بائیڈن کے شاہین صفت ناقدین کا کہنا ہے کہ اب تک کی گئی کارروائی ایران کو نہیں روک سکے گی جو لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثیوں کے ساتھ ساتھ شام اور عراق میں شیعہ ملیشیاؤں کی حمایت کر رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ صرف ایران پر حملہ ہی تہران کو اس بات پر مجبور کرے گا کہ وہ اپنے پراکسیوں اور اتحادیوں کو جنگ سے دستبردار ہونے کا حکم دے۔

جبکہ بائیڈن انتظامیہ کا خیال ہے کہ ایران پر حملہ مشرق وسطیٰ میں وسیع تر تنازعے کا خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔

اپنے گذشتہ دوروں میں وزیر خارجہ بلنکن نے بارہا حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے لیے امریکہ کی حمایت کا اظہار کیا ہے لیکن اسرائیل کے لڑنے کے طریقے پر بھی شدید شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔

واشنگٹن نے اسرائیل سے جو تحمل کا مطالبہ کیا ہے اس میں اسے ناکامی ملی ہے۔ پھر بھی امریکہ نے اسرائیل کو اپنی مہم کے لیے درکار ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھی ہے اگر چہ اسے ان کے استعمال کے طریقے پر تحفظات بھی ہیں۔

البتہ امریکہ کو اس بات میں زیادہ کامیابی ملی ہے کہ اس نے اسرائیل کو تباہی میں پھنسے 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینی شہریوں کو زیادہ سے زیادہ انسانی امداد دینے پر راضی کیا ہے۔ گذشتہ اکتوبر میں اسرائیلی رہنماؤں نے کہا تھا کہ کسی بھی چیز کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ اور غزہ میں سرگرم امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ضرورت کے لحاظ سے کسی بھی چیز کو وہاں جانے کی اجازت نہیں دی ہے۔

طویل عرصے سے جنگی علاقوں میں شہریوں کی مدد کرنے کی کوشش کرنے والے منجھے ہوئے امدادی اہلکاروں نے مجھے بتایا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی اس سے برا کچھ نہیں دیکھا۔ پچھلے چند مہینوں کے دوران متعدد بار غزہ کے اندر جانے والے (اسرائیل اور مصر کی طرف سے صحافیوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے، جو سرحدوں کو کنٹرول کرتے ہیں) ایک شخص نے کہا کہ انھوں نے ’اس وسیع پیمانے اور شدت والا کبھی کچھ نہیں دیکھا۔‘

وزیر خارجہ بلنکن کی اولین ترجیحات میں غزہ میں جنگ بندی کو یقینی بنانا ہے۔ صدر بائیڈن کو مشرق وسطیٰ کو پرسکون کرنے کی ضرورت ہے اور اس کی وجہ صرف مسلسل اور بڑھتی ہوئی جنگ کے خوفناک خطرات نہیں بلکہ انھیں رواں سال انتخابات کا بھی سامنا ہے۔ پولز بتاتے ہیں کہ وہ ووٹ کھو رہے ہیں کیونکہ کچھ امریکی غزہ کے اندر ہونے والی انسانی تباہی کے لیے اسرائیل کی امریکی حمایت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

امریکہ، قطر، مصر اور اسرائیل پر مشتمل سفارت کاری کے نئے سلسلے نے معاہدے کے لیے وسیع پیرامیٹرز تیار کیے ہیں لیکن انھوں نے کوئی تفصیلات نہیں دی ہے۔

حماس نے اپنی شرائط پوری کر دی ہیں۔ وہ 135 دن تک جاری رہنے والا تین مرحلوں پر مشتمل عمل چاہتا ہے جس کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کا مرحلہ وار تبادلہ ممکن ہو گا۔

اس کے علاوہ اس نے مطالبات کی ایک طویل فہرست سامنے رکھی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت کے آخر تک اسرائیل غزہ سے اپنی افواج کو پوری طرح سے نکال لے اور جنگ ختم ہو جائے۔

ان تمام باتوں کو اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے امریکی وزیر خارجہ بلنکن سے ملاقات کے بعد مسترد کر دیا۔

جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل نے کہا ہے کہ اس وقت تک فتح نہیں ہو گی جب تک کہ حماس کی تباہی اور یرغمالیوں کی بحفاظت واپسی نہیں ہو جاتی ہے۔ ابھی تک کوئی بھی مقصد حاصل نہیں ہو سکا ہے۔

مسٹر نتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل حماس کے ساتھ رعایت نہیں کرے گا اور انھوں اپنی بات کو دہرایا کہ ان کی افواج ’مکمل فتح‘ کے قریب ہے۔ حالیہ دنوں میں انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل کو حماس کے رہنماؤں کو مارنے کی ضرورت ہے۔

مسٹر بلنکن اب بھی معاہدہ کے ممکن ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے لیے یہ چیلنج ہے کہ وہ اسرائیل اور حماس کے متضاد موقف کے درمیان فرق کو کم کرنے کی کوشش کریں تاکہ کسی قسم کی جنگ بندی ہو سکے۔

بی بی سی کی معلومات کے مطابق حماس جنگ کے اوائل کے مقابلے میں اب بہت کم پراعتماد ہے۔ اسرائیل کے حملے اور اتنے زیادہ شہریوں کی ہلاکت کا مطلب یہ ہے کہ جنگ میں پھنسے غزہ کے لوگ حماس کے خلاف ہو رہے ہیں جس سے اس کے رہنماؤں کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ انھیں مذاکرات کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

اسرائیل میں وزیر اعظم نتن یاہو اور ان کے اتحادیوں کی طرف سے ابھرنے والی تمام پرعزم بات چیت سے جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے تاکہ یرغمالیوں کی واپسی کے لیے ایک معاہدے طے پانے کا موقع پیدا کیا جا سکے۔

مسٹر بلنکن کے پاس کرنے کے لیے کوئی زیادہ کام نہیں ہے۔ حالات جنگ بندی کے خلاف نظر آتے ہیں کم از کم اس وقت تک جب تک کہ دونوں میں سے ایک یا دونوں فریق خاطر خواہ رعایتیں دینے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں