ماسکو (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے/رائٹرز) روسی صدر ولادیمر پوٹن نے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ جنگ کے خاتمے کا فیصلہ یوکرین پر منحصر ہے۔ ان کا یہ بھی دعوی ہے کہ روس کو شکست دینا ‘غیر ممکن’ بات ہے۔
???? President Vladimir #Putin to @TuckerCarlson:
???? [The Ukrainian authorities] launched a war in Donbass in 2014. All this against the background of opening of NATO’s doors [to Ukraine].
☝️ We did NOT start this war in 2022. This is an attempt to stop it. pic.twitter.com/3kyaA8AfkT
— MFA Russia ???????? (@mfa_russia) February 9, 2024
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کا کہنا ہے کہ روس کو شکست دینا ”ناممکن” ہے۔ دائیں بازو کے خیالات کے فاکس نیوز کے سابق میزبان ٹکر کارلسن کے ساتھ ایک طویل انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جنگ کا خاتمہ یوکرین کے ہاتھ میں ہے۔
Ep. 73 The Vladimir Putin Interview pic.twitter.com/67YuZRkfLL
— Tucker Carlson (@TuckerCarlson) February 8, 2024
پوٹن نے کہا کہ روس کا پولینڈ یا لاتویا پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ انہوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ روسی قید میں وال اسٹریٹ جرنل کے صحافی ایون گرشکووچ کو جیل سے رہا کرنے کا ایک معاہدہ بھی ممکن ہے۔
روسی صدر کا کہنا تھا، ”اب تک، میدان جنگ میں روس کو اسٹریٹجک طور پر شکست دینے کے بارے میں ہنگامہ خیز باتیں اور چیخ و پکار ہوتی رہی ہے لیکن بظاہر انہیں اب یہ اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ یہ نتائج حاصل کرنا بہت مشکل ہے، میری رائے میں تو یہ ناممکن ہے۔”
کریملن کا کہنا ہے کہ پوٹن نے کارلسن کو انٹرویو دینے سے اتفاق اس لیے کیا، کیونکہ ان کا نقطہ نظر بہت سے دیگر مغربی خبر رساں اداروں کی برعکس یوکرین کے تنازعے کی ”یک طرفہ” رپورٹنگ سے مختلف تھا۔
واضح رہے کہ فوکس نیوز کے سابق میزبان کارلسن کو سازشی نظریات پھیلانے کے لیے جانا جاتا ہے اور انہیں گزشتہ برس قدامت پسند امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز نے بغیر کوئی وجہ بتائے برطرف کر دیا تھا۔
وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے انٹرنیٹ پر پوٹن کے انٹرویو کے پوسٹ کیے جانے سے قبل ہی اس کا اثر کم کرنے کے لیے ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ ”یاد رکھیں، آپ ولادیمیر پوٹن کو سن رہے ہیں۔ اور آپ کو ان کی کسی بھی بات کو اہمیت نہیں دینا چاہیے۔”
پولینڈ اور لاتویا میں کوئی دلچسپی نہیں
فروری سن 2022 میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے کسی امریکی نے پوٹن کا پہلی بار انٹرویو کیا، جس میں انہوں نے روسی زبان میں بات کی اور یوکرین پر روسی حملے کی ذمہ داری کییف پر ڈالی۔
انہوں نے اصرار کیا کہ دونوں ممالک اپریل سن 2022 میں استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں دشمنی ختم کرنے سے متعلق ایک معاہدے پر متفق ہونے کے راستے پر تھے، تاہم جیسے ہی کیف کے قریب سے روسی فوجیوں نے انخلاء کیا یوکرین مبینہ طور پر اس سے پیچھے ہٹ گیا۔
پوتن نے مزید کہا کہ ”جلد یا بہ دیر اس کا نتیجہ ایک معاہدے کی صورت میں نکلے گا۔”
اس سوال پر کہ کیا روس نیٹو کے رکن ملک پولینڈ میں فوج بھیجنے پر غور کرے گا، پوتن نے کہا: ”صرف ایک صورت میں، اگر پولینڈ روس پر حملہ کرتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہمیں پولینڈ، لاتویا یا کسی اور جگہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہم ایسا کیوں کریں گے؟ ہمیں اس کوئی بھی دلچسپی نہیں ہے۔”
امریکہ ہتھیاروں کی سپلائی بند کرے
امریکی قانون سازوں میں ابھی بھی یہ بحث جاری ہے کہ آیا یوکرین کی جنگی کوششوں کو مزید رقم فراہم کی جائے یا نہیں۔ ریپبلکن اکثریتی ایوان نمائندگان میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی یوکرین کی امداد کے خلاف بھی ہیں۔
روسی صدر پوٹن نے کہا کہ امریکہ کو اپنے اہم گھریلو مسائل پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا: ”میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اس معاملے پر کیا کہہ رہے ہیں اور ہم امریکی قیادت کو کیا بتا رہے ہیں۔ اگر آپ واقعی لڑائی بند کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ہتھیاروں کی سپلائی بند کرنے کی ضرورت ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ روس کے ساتھ بات چیت کی جائے؟ ایک معاہدہ کرتے ہیں۔ آج جو صورت حال پیدا ہو رہی ہے، اس کو اس طرح سے سمجھتے ہوئے کہ روس آخر تک اپنے مفادات کے لیے لڑتا رہے گا۔”
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ وہ بارہا کہ چکا ہے کہ یہ کییف پر منحصر ہے کہ وہ روسی حکام کے ساتھ کب بات چیت میں شامل ہونا چاہتا ہے۔