لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) جنوری 2024 میں مشرق وسطیٰ تنازعات میں گھرا ہوا تھا۔ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ جاری تھی تو دوسری طرف حوثی باغیوں نے بحیرۂ احمر میں بحری جہاز ہائی جیک کر رکھے تھے جبکہ ایران نے پڑوسی ملک پاکستان سمیت شام اور عراق کی سرحد کے اندر میزائل حملے کیے تھے۔
ان حملوں نے بہت سے لوگوں کو چونکا دیا تھا، خاص طور پر پاکستان کو کیونکہ دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔ جواب میں پاکستان نے بھی ایران پر حملہ کیا۔ دونوں ممالک نے ان حملوں کو اپنے دفاع کی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ سرحد پار دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان چین نے مداخلت کی اور فریقین سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی۔
جنوری میں ایران کی طرف سے طاقت کا یہ واحد مظاہرہ نہیں تھا۔ ایران نے شام اور عراق کے اندر بھی حملے کیے جو دونوں اس کے اتحادی ہیں۔ وہ اسرائیل پر حملہ کرنے کے لیے بھی بے چین دکھائی دیتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں مزاحمت کا محور
ایک ایرانی صحافی اور سینٹر فار انٹرنیشنل پالیسی کے سینیئر محقق نگار مرتضوی کا خیال ہے کہ مزاحمت کا محور درحقیقت مشرق وسطیٰ میں اسلامی ملیشیا گروہوں کا ایک غیر رسمی اتحاد ہے، جو ایران کے اتحادی ہیں۔
اس میں لبنان کی حزب اللہ، عراق کی شیعہ ملیشیا، حماس اور حوثی گروپ شامل ہیں۔ ایران ان گروہوں کو اپنے دشمن امریکہ اور اسرائیل کے خلاف اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ وہ اصولی طور پر ان کی مزاحمت کی حمایت کرتا ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ سنہ 2002 میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے ایران، عراق اور شمالی کوریا کو برائی کا محور قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں۔
نگار مرتضوی کا کہنا ہے کہ ’محور مزاحمت ایک ایسا اظہار ہے جو اسی امریکی اظہار کے خلاف ایجاد کیا گیا۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم برے نہیں لیکن امریکہ نے ہمارے خطے میں بدامنی پھیلا رکھی ہے۔ ہم اس کی مخالفت کرتے رہیں گے اور اس وقت تک لڑیں گے جب تک وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا۔‘
حال ہی میں مغربی عراق میں ایک فوجی ہوائی اڈے پر راکٹ اور میزائل حملے ہوئے جہاں امریکی فوجی تعینات تھے۔ اس حملے میں کئی فوجی زخمی ہوئے۔ ان حملوں کی ذمہ داری ایران کے حمایت یافتہ گروہ ’اسلامک ریزسٹنس‘ نے قبول کی تھی۔
نگار مرتضوی کا کہنا ہے کہ ایران اور پاکستان کی سرحد پر ہونے والی جھڑپوں کا مزاحمت کے محور سے کوئی تعلق نہیں۔ ’اس کا ہدف ایک مقامی بلوچ عسکریت پسند گروہ ہے، جسے ایران دہشتگرد تنظیم سمجھتا ہے۔‘
کئی مغربی ممالک نے مزاحمت کے محور کے بیشتر گروہوں کو دہشتگرد تنظیمیں قرار دے رکھا ہے۔
نگار مرتضوی کا کہنا ہے کہ دو دہائیاں قبل یمن میں حوثی گروہ نے مقامی لوگوں کے حقوق کے لیے مزاحمت شروع کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ لبنان پر اسرائیل کے حملے کے خلاف حزب اللہ کی مزاحمت جاری ہے۔ ایسے میں ایران نے سوچا کہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف اس کے اور ان گروہوں کے مقاصد ایک ہیں اور وہ ان گروہوں کے ساتھ شامل ہو گیا۔
یمن کا حوثی گروہ اسرائیل کو دشمن سمجھتا ہے اور غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے آغاز کے بعد سے اس نے مزاحمتی رکن حماس کی حمایت ظاہر کرنے کے لیے بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر حملے تیز کر دیے ہیں۔ اس کے جواب میں امریکہ اور برطانیہ نے حوثیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے ہیں۔
نگار مرتضوی کا کہنا ہے کہ اس گروپ کو ایران سے اقتصادی اور سیاسی مدد ملتی ہے۔ وہ ایران کی ہدایات پر عمل کرتا ہے۔ اس کے ذریعے ایران اپنے حریفوں کو غیر روایتی انداز میں فوجی چیلنج پیش کر سکتا ہے۔
درحقیقت ایران کے پاس طاقتور دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اتنی بڑی فوج یا وسائل نہیں ہیں، اس لیے اس نے ہم خیال مزاحمتی گروپوں کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہیں تاکہ تصادم کی صورت میں وہ انھیں اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کر سکے لیکن یہ واضح نہیں کہ ایران ان گروہوں کے لیے کتنا پرعزم ہے۔
نگار مرتضوی اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’ایرانی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ خود مختار گروہ ہیں اور وہ صرف مشترکہ مقصد کی وجہ سے ان کی حمایت کرتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میں امریکی انٹیلیجنس سے اتفاق کرتا ہوں کہ غزہ سے اسرائیل پر حماس کے حملے کی منصوبہ بندی میں ایران کا کوئی کردار نہیں تھا۔‘
’ایرانی حکام نے دو طرفہ بیانات دیے۔ سب سے پہلے انھوں نے کہا کہ وہ اصولی طور پر اس کارروائی کی حمایت کرتے ہیں لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ مکمل طور پر فلسطینیوں کی کارروائی ہے۔ یعنی ایران اس طرح کی حمایت کرتا ہے کہ اگر ضروری ہو تو وہ سات اکتوبر کے حملے کے نتائج سے بچ سکے۔‘
نگار مرتضوی کے مطابق محور مزاحمت اور ایران کے درمیان بہت سے معاملات پر اختلافات ہیں لیکن ایران کے کردار کو سمجھنے کے لیے اس کی تاریخ میں جھانکنا ضروری ہے۔
ایران میں حکومت کی تبدیلی
موجودہ ایران ایک اسلامی جمہوریہ ہے لیکن اس سے پہلے وہاں بادشاہت تھی۔ ایران کا شاہ مغربی ممالک کی مدد سے ملک کو جدید بنانا چاہتا تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایرانی تاریخ اور سیاست کی پروفیسر مریم عالم زادہ کہتی ہیں کہ ایران کے شاہ محمد رضا پہلوی اور امریکہ کے درمیان قریبی تعلقات تھے۔
’محمد رضا پہلوی عظمت چاہتے تھے اور خود کو امریکہ کا قابل اعتماد اتحادی سمجھتے تھے۔ 1979 کے اسلامی انقلاب سے پہلے ایران کی خارجہ پالیسی زیادہ تر امریکہ کے ساتھ اس کے اتحاد پر مرکوز تھی جس نے مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات کو متاثر کیا۔
اس دوران امریکہ، سوویت یونین اور ان کے اتحادیوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی۔ امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے اتحادی چاہتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی شاہ نے ایران کو مغربی ممالک جیسا بنانے کی کوششیں تیز کر دیں۔
ان کی انتظامیہ کے خلاف ملک میں ہڑتالیں اور فسادات شروع ہو گئے۔ شاہ تقریباً چالیس سال اقتدار میں رہنے کے بعد 1979 میں ملک سے فرار ہو گئے۔ ان کی رخصتی کے بعد ایک مذہبی رہنما آیت اللہ خمینی جلاوطنی سے واپس ایران آئے اور ملک کے سپریم لیڈر بن گئے۔
مریم عالم زادہ کا خیال ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں سب سے بڑی تبدیلی عوام کے رہن سہن میں آئی۔ خواتین کے لیے حجاب اور مردوں کے لیے عام لباس پہننا لازمی قرار دیا گیا۔
دوسری تبدیلی ایران کی خارجہ پالیسی میں آئی۔ دنیا کے بیشتر ممالک کو دشمن کے طور پر دیکھا جانے لگا اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے اثر و رسوخ سے دور رہنے پر زور دیا گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک میں بھی اسلامی انقلاب لانے کے منصوبے بنائے جانے لگے۔ مریم عالم زادہ کا کہنا ہے کہ اس کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا کیونکہ ملک کے بااثر گروہوں کا صرف ایک بہت چھوٹا حصہ ہی یہ چاہتا تھا۔
مریم عالم زادہ کا خیال ہے کہ کچھ مذہبی رہنما اور ملیشیا رہنما، جنھوں نے شام، لبنان اور فلسطینی گروہوں کے ساتھ تعلقات استوار کیے تھے، یہ چاہتے تھے لیکن اسلامی انقلاب کے چند سال میں ہی یہ رہنما پسماندہ ہو گئے کیونکہ ایران کی بنیادی پالیسی قوم کی تعمیر پر مرکوز ہو گئی۔ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اتحاد قائم کرنا۔
ایران کے سپریم لیڈر کا انتقال 1989 میں ہوا۔ ان کے جانشین آیت اللہ علی خامنہ ای گذشتہ 35 سال سے حکومت میں ہیں لیکن ایران میں طاقت کے ڈھانچے کی نوعیت کیا ہے؟
مریم عالم زادہ کا کہنا ہے کہ سپریم لیڈر ملک میں اقتدار کی سیڑھی پر سب سے اوپر ہیں۔ اس کے بعد منتخب حکومت، کابینہ اور پارلیمنٹ ہے لیکن کئی متوازی اداروں کا پالیسی فیصلوں میں کردار ہوتا ہے۔
اس میں اسلامی گارڈ کور پاسداران انقلاب بھی شامل ہے۔ یہ عسکری ونگ ملک کی سلامتی اور اسلامی انقلاب کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہ نہ صرف ایک فوجی ادارہ ہے بلکہ مالیاتی اور خارجہ پالیسی پر بھی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔
مریم عالم زادہ کے مطابق پاسداران انقلاب میں اندرونی اختلافات ہیں۔ اس کے کچھ رہنما سپریم لیڈر کی بنیاد پرست خارجہ پالیسی کے حق میں نہیں لیکن جب تک موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای ہیں، حتمی فیصلہ ان کے پاس رہے گا۔
ایران میں مغربی سیاسی اور ثقافتی نظریات کی مخالفت جاری ہے۔ جب ایران کے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات اس قدر تلخ ہو چکے ہیں تو اسے معاشی شراکت دار کہاں سے ملیں گے؟
روس اور چین کے ساتھ اقتصادی تعاون
واشنگٹن میں قائم بروکنگز انسٹیٹیوٹ میں فارن پالیسی پروگرام کی نائب صدر اور ڈائریکٹر سوسن میلونی کا کہنا ہے کہ ایران اب روس، چین اور ایشیا کی بڑی معیشتوں کے ساتھ اقتصادی اتحاد بنا رہا ہے۔
’ایران کی قیادت ملک کو روس اور چین کے برابر بنانا چاہتی ہے۔ اس اتحاد کے ذریعے روس کو یوکرین جنگ کے لیے ایران سے میزائل اور ڈرون کی سپلائی مل رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کو اس سے معاشی فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔
روس اور ایران دنیا کے وہ ممالک ہیں جن پر سب سے زیادہ پابندیاں عائد ہیں۔ ایران پابندیوں کی زد میں ہے کیونکہ وہ اپنے جوہری پلانٹس کی بین الاقوامی نگرانی سے انکار کرتا ہے اور اس پر بیرون ملک کارروائیاں کرنے اور اہم لوگوں کو ہلاک کرنے کا الزام ہے۔
سوسن میلونی کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ممالک پابندیوں سے بچ کر تجارت جاری رکھنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ ایران اپنی فوجی صلاحیت کو مضبوط کرنے کے لیے روس سے لڑاکا طیارے اور دیگر فوجی مواد چاہتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس قسم کا تعاون کئی سال سے جاری ہے۔
ایران اور چین کے درمیان تجارتی تعلقات بھی کئی سال سے مضبوط ہو رہے ہیں۔
سوسن میلونی کے مطابق چین ایران کی معیشت کے لیے اہم ہے کیونکہ امریکی پابندیوں کے باوجود چین ایران کا زیادہ تر تیل خریدتا ہے۔ چین اور روس نے ایران کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے ہیں کیونکہ ایران امریکہ کا سخت مخالف ہے۔
سوسن میلونی کا کہنا ہے کہ ایران ایشیا میں نئے اتحاد بھی بنا رہا ہے۔ 2003 میں صدام حسین کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد عراق میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔ یہ عراق کو بجلی اور دیگر ضروری اشیا کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
چین کی ثالثی سے ایران نے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کیے ہیں لیکن پابندیوں کی وجہ سے ایران کی معیشت کو سینکڑوں ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسے اپنی پالیسیوں کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔
مغربی ممالک سے مذاکرات کا امکان
بحر اوقیانوس کونسل کے سکاو کرافٹ مڈل ایسٹ پروگرام کی ایک محقق کرسٹین فونٹینروز کے مطابق، ایران کے رہنما خطے اور پوری دنیا میں اپنے پڑوسیوں کو اپنے وژن کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
’ملک میں تعلیم کی بہتری، نئی ٹیکنالوجی، فوڈ سکیورٹی اور عالمی منڈی میں جگہ بنانے کے بارے میں سوچنے کی بجائے وہ صرف اپنی حکومت بچانا چاہتے ہیں، اس لیے ان سے بات چیت مشکل ہے۔‘
لیکن ایران اور مغربی ممالک کے درمیان مذاکرات مکمل طور پر رکے نہیں۔ مثال کے طور پر گذشتہ سال ستمبر میں قطر کی ثالثی سے ایران اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت امریکہ پابندیوں کی وجہ سے ایران کے چھ ارب ڈالر واپس کرنے کے لیے تیار تھا۔
لیکن سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد امریکہ اور قطر نے فیصلہ کیا کہ ایران فی الحال یہ رقم نہیں لے سکے گا کیونکہ اس رقم کا غلط استعمال بھی ہو سکتا ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر کو تاحیات مقرر کیا جاتا ہے۔ اب ان کی عمر 84 سال ہے اور کسی جانشین کا انتخاب نہیں کیا گیا۔
کرسٹین فونٹینروز کا کہنا ہے کہ اگلے لیڈر کو اقتدار سونپنے کے دوران ان کو لاحق خطرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور سرحد پار سے میزائل حملے سے اس کام میں مدد ملے گی۔
کرسٹین فونٹینروز کی رائے ہے کہ ایران کے رہنما اپنی عوام کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ حکومت مضبوط ہے اور عوام کو مخالف گروہوں سے تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔ عوام کو ملک کے لیڈروں پر اعتماد کرنا چاہیے اور ان کی پالیسیوں کی حمایت کرنی چاہیے۔ ایسا اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ حکومتی پالیسیوں کے خلاف عوام میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اسرائیل اور غزہ کے درمیان تنازع کی وجہ سے دنیا کی توجہ ایران کے اقدامات کی طرف کم ہوئی ہے۔
کرسٹین فونٹینروز کا خیال ہے کہ ایرانی حکومت اندرون اور بیرون ملک احتجاج کو کچلنے کے لیے اس کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ جنوری میں، ایران نے خلیج عمان میں تیل بردار بحری جہاز پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا جسے امریکہ نے گزشتہ سال پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے پر قبضے میں لیا تھا۔ اس کے علاوہ ایران نے تین ہمسایہ ممالک پر میزائل حملے کیے لیکن ایران اس جنگ کا خاتمہ کیسے دیکھنا چاہے گا؟
کرسٹین فونٹینروز کا کہنا ہے کہ ’ایران چاہے گا کہ اسرائیل غزہ کے تنازع میں تباہ ہو جائے کیونکہ اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹانا ایران کا اعلانیہ ہدف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ایسی صورتحال میں وہ ہمسایہ عرب ممالک اور دنیا کے دیگر ممالک کے لیے اسرائیل کے ساتھ اتحاد کو مشکل بنانا چاہے گا تاکہ خطے میں اسرائیل اور امریکا کا اثر و رسوخ کم ہو۔ اگر وہ یہ مقصد حاصل کر سکتا ہے تو گذشتہ کئی سال سے حماس میں اس کی سرمایہ کاری نتیجہ خیز ثابت ہو گی۔‘
اب واپس آتے ہیں اپنے اصل سوال کی طرف، ایران کیا چاہتا ہے؟ ماہرین کی رائے ہے کہ ایرانی رہنما اپنے اقتدار کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ایران مشرق وسطیٰ کا سب سے بااثر ملک بننا چاہتا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ سے براہ راست لڑائی کیے بغیر وہ چین اور روس کے ساتھ مل کر اپنی طاقت بڑھانا چاہتا ہے۔